اسلامی جمہوریہ پاکستان،یہ نام ہمیں پاکستان کے وجود میں آنے کے نوسال بعد پہلے آئین انیس سو چھپن میں ملاجب پاکستان کا پہلا دستور، پہلا آئین منتخب اسمبلی نے تیار کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور ریاست پاکستان کا وجود اسلامی نظریہ پر محیط ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ہی اسلامی نظریات پر ڈالی تھی کیونکہ سیاست کیلئے کانگریس کا پلیٹ فارم موجود تھا لیکن آپ نے محصوص کرلیا تھا کہ کانگریس صرف ہندوؤں کے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مسلم اکثریت ہندوؤں کی مغلوبیت میں آجائے گی اسی احساس کو عوام میں بیدار کیا قائد اعظم محمد علی جناح ڈاکٹر علامہ اقبال نواب لیاقت علی خان اور بیشمار دیگر ساتھیوں نے اسلامی تشخص ثقافت روایت اور مذہبی آزادی اسلامی ریاست کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں یک قدم یک جان ہوکر آ ل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے سب ایک ہوگئےاور ایسی تحریک چلائی کہ برطانوی حکومت مسلمانوں کیلئے الگ ریاست دینے پر مجبور ہوگئی مختصر اً یہ کہ پاکستان چودہ اگست انیس سو سینتالیس میں معروض وجود میں آگیالیکن پاکستان مخالف قوتوں کو پاکستان کا وجود گوارا نہیں ہورہا تھا کیونکہ یہ وطن خالصتاً اسلام کے نام پر بنا تھاگویا دنیا کی دوسری اسلامی ریاست بنی پہلی ریاست مدینہ المنورہ تھی دوسری پاکستان بحرکیف قائد اعظم صرف ایک سال زندہ رہے ان کے رفیق خاص نواب لیاقت علی خان کو راستہ سے ہٹھانے کیلئے شہید کردیا گیا پھر ان پاکستان مخالف قوتوں خاص کر قادیانیوں اوریہودیوں نے اسلامی ریاست پاکستان کو سازشوں ،مکاریوں،دھوکا دہی اور فریب کیساتھ جمہوری ریاست میںتبدیل کردیا اور اپنے غلاموں کو منصب اعلیٰ اور اقتدار پر نافذ کردیا پھر کیا تھا پاکستان کا مستقبل تاریک اندھیرے کی جانب بڑھنے لگاکئی جمہوری حکمران آئے انھوں نے جمہوریت کے نام پر پاکستان کو کاری ضربیں لگائی معاشی بدحالی کی طرف دھکیل دیا معاشرتی بد اخلاقی اور برائیوں میں جھونگ دیا۔۔۔معزز قارئین!!کہتے ہیں انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے یعنی تمام مخلوقات پر اس کو فوقیت بخشی ہےپھر اسی انسان کو اس نے اختیار عطا کیاکہ وہ جس راستے کا چاہے انتخاب کرے انسان تقویٰ اختیار کرےتو فرشتوں کا زہد اس کے سامنے مانند پڑجائے اور اگر بدی کا راستہ اختیار کرلے تو شیطان بھی اس سے شرمندہ ہوجائے اس کی گھناؤنی فطرت اور نفس کی بے راہ روی اسے پل بھر میں درندہ بنادے ہمارے معاشرے میں ایسے ہزار ہا درندے انسانوں کا روپ دھارے گھوم رہے ہیں جن سے انسان تو کیا فرشتہ جیسی معصوم کلیاں بھی محفوظ نہیں گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں کمسن بچوں اور بچیوں کیساتھ جنسی کیس تواتر کیساتھ پیش ہورہے ہیں۔۔
اب تو روز کی بات ہے کبھی زینب کی خبر آتی ہے کبھی اسما کی کبھی عصمت کی تو کبھی فرشتہ کی، کسی کا کیس شوشل میڈیا پر کہرام مچادیتا ہے تو کوئی بس اخبار کے کسی اندر کے صفحے پر کسی کونے کھدرے میں پڑی بے خبر رہ جاتی ہے سب پر ہی ایک جیسا ظلم ہوتا ہے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا ان کا قصور ان کی جنس ہے جو انہیں قدرت نے عطا کی، وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں پندرہ مئی کو دس برس کی فرشتہ کو اغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر بے دردی سے قتل کردیا گیا اس واقعہ سے متعلق عوام میں غم و غصہ پایا گیااور اس حوالے سے شوشل میڈیا پر مختلف تحریریں بھی چلیںپولیس کے نا مناسب رویہ کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بھی بنایاگیا فرشتہ کے لواحقین کی جانب سے کیئے جانے والے احتجاج میں سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی فرشتہ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ اس کے لا پتہ ہونے کا معاملہ جب پولیس کے پاس لیکر کئے تو ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا اور چار روز تک رپورٹ درج نہیں کی، فرشتہ کے پوسٹ مارٹم میں بھی تاخیر کی جس پر لواحقین کو احتجاجا اسپتال کے سامنے دھرنا دینا پڑا بعد ازاں پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں فرشتہ کیساتھ زیادتی کی تصدیق ہوگئی اس کیس میں پولیس کا نا مناسب رویہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے پولیس کی جانب سے فرشتہ کے بھائی اور والد کیساتھ انتہائی نا مناسب رویہ اپنایا گیا اور چار روز تک ایف آر آر درج نہیں کی گئی فرشتہ کے بھائی کی بھی وڈیو شوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ کہ رہا ہے کہ جب وہ تھانہ شہزاد ٹاؤن پہنچے تو ایس ایچ او نے بغیر بات سننے کہا کہ لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے جس پر عوامی حلقوں کی جانب سے پولیس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیاکیا قیامت گزر رہے ہوگی اس باپ پر کہ جس کی روح اور جسم کا ٹکڑا اتنے دنوں سے غائب ہو اور جب وہ انصاف مانگنے جائیں تو انہیں پولیس کی جانب سے اس قسم کی واہیات باتیں سننے کو ملیں جہاں قانون کے رکھوالے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کی بچی کچی عزت پر بھی سوالیہ نشان لگانا شروع کردیں کس کس کا نوحہ پڑھا جائے اور کب تک پڑھا جائے اس ننھی کلی کی چیخوں کی آواز اور مدد کی پکار شاید ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے میں کامیاب نہ ہونے پائیں مگر خون نا حق کو آخر کب تک چھپایا جائیگاانسانوں کے روپ میں پھرتے ان جنسی درندوں کو کب لگام ڈالی جائے گی ہم کیوں آج تک اپنے ملک کو خواتین کیلئے محفوظ نہیں بناسکے کیوں مردوں کو لگتا ہے کہ وہ کسی بھی عورت پر آواز کس کر چھیڑ خانی کرکے یا ریپ کرکے آزادی سے گھوم سکتے ہیں کیوں انہیں لگتا ہے کہ ان کی مردانگی اس ملک کے قانون سے بالا تر ہےگزشتہ سال ہم زینب کا رونا رورہے تھے وہی ایک سات سال کی بچی جس کی لاش ایک کوڑے میں پڑی تھی اس کے قاتل کو عبرتناک سزا دینے کے باوجود دوہزار اٹھارہ میں ہر روز تقریبا دس بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ تعداد دو ہزار سترہ سے گیارہ فیصد زیادہ ہے سات سالہ زینب چار سالہ عصمہ اور اب دس سالہ فرشتہ نجانے اور کتنی بد نصیب بچیاں ہونگی جن کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں ہو گا اس معاشرے کی بھوک میں جنسیت اس قدر شامل ہوچکی ہے کہ دم گھٹتا ہے جس طرف نظر اٹھے گندی بھوکی غلاظت ٹپکاتی نظریں کوئی معصوم بچی ہو یا کمسن بچہ گھر سے کھیلنے نکلے اور کسی جنسی بھیڑیئے کے ہاتھ لگ جائے تو پھر اس کی لاش ملتی ہے۔۔
لاش بھی ایسی جس کی تصویر نہ دیکھی جائے سمجھ نہیں آتا کہ کس کس پر رویا جائے تربیت کے فقدان پر نصابوں پر انصاف کے نظام پر یا نظام کے سرے سے نہ ہونے پر ایک دس سال کی فرشتہ اس کی بد دعائیں کہاں کہاں نہیں سنی گئی ہونگیں اس کا رونا اس کا جھلسنا کس کس عدالت میں وہ اپنا مقدمہ سنارہی ہوگی یہ کیسا ریپ زدہ ملک بنتا جارہا ہے اس کی ہوا میں کتنی گھٹن کتنی بدبو ہے یہ کیسے لوگ ہیں کہ کسی معصوم کی یوں آرام سے جان لے لیتے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو فرض نبھانے کے بجائے ٹالتے رہتے ہیں یہ کیسے نا خدا ہیں کہ جب تک لاش پر احتجاج نہ ہو انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی فرشتہ مومن کی لاش ہماری تباہی کی طرف ایک اور قدم ہے کہتے ہیں اسے انصاف دیں جھلسی لاش کو آپ کیا انصاف دیں گے ایس ایچ او معطل ہوجائیگا مجرم پھانسی پر چڑھ جائیں گے لیکن فرشتہ جیسی اور معصوم واپس نہیں آئیں گی اب کچھ ہوسکتا ہے تو یہ کہ اس ریپ زدہ معاشرے کا کچھ کیا جائے اپنے اپنے دائروں میں تربیت کریںقانون بنائیں فریم ورک بنائیں کہ اب کسی معصوم کیلئے احتجاج کی ضرورت نہ پڑےیہاں سڑکوں پر ہر لڑکی اسی خوف کیساتھ چلتی ہے اوبر اور کریم نے زندگی آسان کردی ہے لیکن پھر بھی دھڑکا لگا رہتا ہے کیونکہ ان میںبھی بہت خامیاں ہیں تحفظ کیلئے اس کی سب سے بری وجہ اوبر اور کریم میں خامیاں یہ ہیں کہ ان کے پائلٹ کا مکمل نفسیاتی، ذہنی اور خاندانی پس منظر کا دیٹا نہیں ہوتا کوئی بھی پائلٹ بن سکتا ہے بہت گنجائش ہے دہشتگردوں جرائم پیشہ عناصر کے داخلے کی یہ دونوں کمپنیاں جانتی ہیں کہ پاکستان میں نہ قانون ہے اور نہ ہی قانون والے ہیں یہاں ہر شئے بکتی ہے بس ان کے ضمیر کی قیمتیں جدا جدا ہیںبحرکیف یہ سڑکیں بھی ہماری نہیں ہیں سڑکیں چھوڑیئے ہمارے گھر بھی اپنے نہیں ہیں شاید اسی لیئے جب کوئی لڑکی موٹر سائیکل چلاتی نظر آتی ہے تو ہم دل ہی دل میں فخر محسوس کرتے ہیں کوئی تو ہے جو اس خوف سے لڑ رہی ہے اور ان سڑکوں پر اپنا حق جتا رہی ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس جرت کی وہ بہت بھاری قیمت چکارہی ہوگی محلہ دار اور رشتہ دار طرح طرح کی باتیں بناتے ہونگے لیکن کوئی ایک ہوگا جو اس کی ہمت ہوگا ہم اسی ہمت کے سہارے آگے بڑھ رہے ہیںان لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر وہ ہوتی ہیں جو جنسی حراسانی کو قبول نہیں کرتیں بلکہ وہ اسے جرم سمجھتے ہوئے اس کے خلاف آواز ٹھاتی ہیں انہیں بھی اپنی جرات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہےاعداد و شمار کے مطابق پاکستان میںہر روز بارہ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں جو کیسس ریکارڈ ہوتے ہیں ان کے مطابق چھپن فیصد لڑکیاں اور چوالیس فیصد لڑکے اس مذموم فعل کا شکار ہوتے ہیں تمام رجسٹرڈ کیسس اور جو رجسٹرڈ نہیں ہیں ان کے خلاف سرے عام سزا کیوں نہیں دی جاتی کیوں ایک دبیز قالین کے نیچے گند چھپانا مقصود ہے تاکہ ریاستی اور حکومتی کارکردگی پر کوئی سوال نہ اٹھ سکے اس لیئے انہیں دبانا ہی بہتر ہے اس قسم کے اندوہناک واقعات کا ہونا ہمارے لیئے باعث تشویش ہے۔۔
قوم کی فکری تربیت کی ضرورت ہے معاشرے میں موجود جنسی ہیجان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ایسے انسان سوز عمل کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور ایسا گھناؤنا فعل کرنے کی دور کی بات اسے سوچنے سے بھی گریز کریں اپنے بچوں کو محفوظ اپنی نگرانی میں رکھیں وہ وقت گئے جب چاچا ماما کہہ کر ہر ایک کی گود میں چڑھا دیا جاتا تھاآج وقت ہے اصل چاچا اور ما ما کو بھی محدود کیا جائےاپنے بچوں کو سیکھائیں ماں باپ دادا دادی نا نا نانی کے علاوہ کسی کے گلے نہ لگنا کسی کی گود میں نہیں جانا یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو قریبی عزیزوں اور غیروں میں فرق سیکھائیں اگر سگے انکل کو وہ چچابلاتے ہیں تو ان ناموں سے ان کو غیر لوگوں کو بلانے کی عادت نہ ڈالیںبچوں کے ذہن چیزوں کی ظاہری صورت پر چلتے ہیں اگر وہ سب کو چاچا کہے گا تو اصلہ اور نقلی کی تمیز نہ کرسکے گا جو اصل نقصان کی بہت بڑی وجہ بن سکتا ہے۔۔معزز قارئین!! بھارت نے ان ستر سالوں میں اپنا مکمل قانون تیار کرلیا اور برطانوی راج کے قانون کو نکال باہر کردیا ہے حالیہ دنوں میں مودی ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا ہے توقع کی جارہی ہے کہ اب ہندو ازم نظام کی جانب بڑھے گا تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہندو ازم راج میں ظلم و بربریت، انسان سوز مظالم ہوتے ہیں ہندو ازم نظام میں کمزور طبقہ انتہائی پستا ہے اور برہمن طبقہ عیش کرتا ہے، پرتھوی راج ہو یا راجہ ڈاہر ان سب کی تاریخ موجود ہے جبکہ دین اسلام ایک امن پسند مساوات برابری اور بھارئی چارگی کا نظام دیتا ہے جس میں سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں شاہ اور غلام میں کوئی فرق نہیں ، عزت و ادب کے اعتبار سے تقویٰ اور متکی کو درجہ دیا جاتا ہے لیکن ان کی زندگیاں دیگر انسانوں سے زیادہ خدمتگار سادگی اور عاجز و انکسار ہوتی ہیں۔۔
معزز قارئین!! نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال اچھا کام کررہے تھے ان کے خلاف شیطانی ذہنوں نے جس قدر ان کی ذات پر کیچڑ اچھالا وہ قابل مذمت ہے عمران خان کو چاہیئے کہ انہیں اسی منصب پر رکھیں تاکہ سازشی ٹولہ ناکام و نا مراد ٹھہرے اگر عمران خان نے نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کو تبدیل کردیا تو گویا شیطانی ٹالہ کامیاب ہوگیاپاکستان میں بے رحم احتساب کی ضرورت ہے بلکہ نظام کی تبدیلی ناگزیرہوچکی ہے اسلامی ریاست کےمقصد اور نظریہ کے تحت ملک بنا تھا یہاں اسلامی ریاست ہی قائم کی جائے اس حوالے سے ایک صاحب نے مجھے تحریر کیا کہ جاوید بھائی آپ کس اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں شعیہ کا نظام بریلوی کا نظام اہلحدیث کا نظام یا دیوبندی کا نظام میں نے انہیں جواب دیا کہ مدینۃ المنورہ میں کون سا مسلک تھا یا پھر اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آپ ﷺ کے نقش قدم پر رہتے ہوئے سب سے بہترین نظام حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے دور اقتدار میں جو اسلامی نظام نافذ کیا تھا وہی نظام آج یورپ کے کئی ممالک اپنائے ہوئے ہیں اور بہت زیادہ ترقی یافتہ ملک بن چکے ہیں ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کااسلامی نظام ریاست اپنانا ہوگاآپ کے نظام میں کوئی رعایت نہیں اور کوئی عداوت بھی نہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ قوم اسی طرح اپنی ننبھی کلیوں کی لاشیں دیکھتی رہیں گی یا پھر نظام کی تبدیلی کیلئے پرازم ہوکر نعرہ تکبیر کیساتھ اس ملک اور افواج پاکستان کیساتھ کھڑی ہوتی ہیں کہ نہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ پاکستان میں جلد اسلامی نظام یعنی نظام مصطفیٰ کو رائج کرنے کیلئے ہمارے حکمرانوں کو عقل کے ناخن دے اور ہماری قوم کو ان نام نہاد جمہوری مداریوں بہروپیوں جھوٹے اور عیاش،دولت لوٹنے والے سیاسی و جمہوری حکمرانوں اور جماعتوں سے جان چھوڑائے اور خاص کر ان بے عمل دنیا پرست دینی جماعتوں سے جن سے آج تک دین محمدی کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہےآمین ثما آمین۔۔ ۔۔۔اللہ پاکستان کو ہر دشمن سے محفوظ بھی رکھے آمین ثما آمین۔۔۔۔۔ ۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔!!