آنکھوں کی دہلیز پہ ٹھہرا دریا دینے والی تھی

Eyes Sad Girl

Eyes Sad Girl

آنکھوں کی دہلیز پہ ٹھہرا دریا دینے والی تھی
داسی تھی اور دان میں اپنا صدقہ دینے والی تھی
تم نے بڑھ کر روک لیا ہے میرا رستہ ورنہ میں
تم پہ وار کے سچ مچ ساری دنیا دینے والی تھی
اس بھائی نے چھین کے بیچے میرے چند نوالے بھی
جس کو میں کھلیان سے اپنا حصہ دینے والی تھی
اچھا ہے وہ لوٹ گیا ہے بن دیکھے دروازے سے
سچ تو یہ ہے میں خود اس کو رستہ دینے وا لی تھی
تم نے تو خود اس کا دامن اشکوں سے لبریز کیا
جو معصوم سی لڑکی تم کو پُرسہ دینے والی تھی
شکر کہ میں نے ایک صدا پر پیچھے مڑ کر دیکھ لیا
ایک سہیلی پشت سے ورنہ دھکا دینے والی تھی
وہ دنیا کے منہ پر دیکھو واپس آکر تھوک گیا
دنیا جس کے نام کا مجھ کو طعنہ دینے والی تھی
آج کسی کی خاطر ہنس کر کیوں دروازہ کھول دیا
تم تو ایماں دل نگری پر پہرہ دینے والی تھی

شاعرہ: ایمان قیصرانی