واشنگٹن (جیوڈیسک) ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے ایسے تجارتی معاہدوں کی منظوری میں اب امریکی کانگریس اور اس کے ارکان کو شامل نہیں کرنا چاہتی۔ وائٹ ہاؤس کے بقول اس کی وجہ ’ہنگامی صورت حال‘ ہے۔
مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو امریکی اسلحے کی ترسیل کے ان معاہدوں کی مالیت کم از کم بھی 8.1 ارب ڈالر (7.2 ارب یورو) بتائی گئی ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ عسکری نوعیت کے ان تجارتی معاہدوں کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کے لیے امریکی کانگریس کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرنا چاہتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گہا ہے کہ جزیرہ نما عرب کے مختلف ممالک کو ان ہتھیاروں کی فروخت کا مقصد مشرق وسطیٰ میں ’امریکا کے اسٹریٹیجک مفادات‘ کا تحفظ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق یہ ہتھیار سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن جیسے اتحادی ممالک کو فراہم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان ہتھیاروں کی ترسیل کا مقصد ’ایرانی جارحیت‘ کے خلاف تحفظ ہو گا اور عرب ریاستوں کو امریکی اسلحے کی اس ترسیل سے خطے میں ’استحکام میں اضافہ‘ ہو گا۔
مائیک پومپیو کے اس بیان سے قبل امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک اہم ڈیموکریٹ رکن روبرٹ میننڈیز نے یہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح ٹرمپ انتظامیہ کو مشرق وسطیٰ کی ان ریاستوں کو امریکی ہتھیار فراہم کرنے سے روکا جائے۔ اس اسلحے میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں، جو اپنے ہدف کو بغیر کوئی غلطی کیے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
سینیٹر روبرٹ میننڈیز کے خیال میں یہ امریکی ہتھیار یمن میں شہری آبادی کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں اور یوں امریکا عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک اور برسوں سے خانہ جنگی کی شکار ریاست میں پہلے سے پائے جانے والے انسانی بحران میں مزید شدت کا سبب بنے گا۔ اس ڈیموکریٹ سینیٹر نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان ہتھیاروں کی ترسیل سے متعلق ایک ایسا ’غیر واضح قانونی حوالہ‘ دیا ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ کانگریس کو حاصل اس کے اس قانونی اختیار کی نفی کرنا چاہتی ہے کہ منتخب امریکی عوامی نمائندے ہتھیاروں کی ترسیل کے ایسے معاہدوں کی جانچ پڑتال کر سکیں۔
امریکی سینیٹ کے اس سرکردہ ڈیموکریٹ رکن کے مطابق ایران کئی برسوں سے مسلسل ’غلط رویہ‘ اپنائے ہوئے ہے، لیکن ایران کا یہ رویہ بھی اس فیصلے کے لیے کافی نہیں کہ اسے بنیاد بنا کر ٹرمپ انتظامیہ اپنے اس اقدام کو قانوناﹰ ایک ’ہنگامی قدم‘ کے طور پر تسلیم کروا سکے۔ سینیٹر میننڈیز نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکی کانگریس کے کئی دیگر ارکان کے ساتھ مل کر ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کو رکوانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے واشنگٹن میں کہا کہ جزیرہ نما عرب کی متعدد ریاستوں کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق دستاویزات تقریباﹰ ڈیڑھ سال پہلے کانگریس کے سامنے رکھ دی گئی تھیں لیکن کانگریس نے اس بارے میں کوئی عملی فیصلے نہیں کیے تھے۔
پومپیو نے کہا کہ خطے کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کو اب کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ہی تھا۔ اس لیے ایران کے ساتھ پائی جانے والی موجودہ کشیدگی کے پیش نظر ان ہتھیاروں کی ترسیل میں اب ’مزید کوئی تاخیر نہیں کی جا سکتی‘۔
عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن میں 2015ء سے ایک ایسی خانہ جنگی جاری ہے، جس میں براہ راست فریق صدر منصور ہادی کے حامی فوجی دستے ہیں اور حوثی باغی۔ لیکن دراصل یہ جنگ سعودی عرب اور ایران کی جنگ بھی ہے۔ اس لیے کہ منصور ہادی کے حامی دستوں کو سعودی عرب کی قیادت میں ایک کثیرالملکی عسکری اتحاد کی بھرپور عملی فوجی مدد حاصل ہے جبکہ یمن کے حوثی باغی واضح طور پر ایران نواز ہیں، جو خطے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا حریف ملک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یمن کی جنگ میں اب تک 10 ہزار سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے ہزاروں عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ یہی جنگ یمن میں ایک شدید انسانی المیے کی وجہ بھی بن چکی ہے، عوام بھوک اور فاقوں کا شکار ہیں اور جگہ جگہ بیماریاں پھیل چکی ہیں۔