طالبان کے قید خانوں میں قیدیوں پر تشدد اور ان کا قتل

Taliban

Taliban

افغانستان (جیوڈیسک) ایک ایسے وقت پر کہ جب افغان امن عمل زور و شور سے جاری ہے، اقوام متحدہ نے ایک تازہ بیان میں افغان طالبان کی جانب سے قید خانوں میں قیدیوں پر تشدد کی رپورٹوں پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قید خانوں میں موجود افراد کے ساتھ کافی برا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ عالمی ادارے نے یہ انکشاف اتوار چھبیس مئی کو جاری کردہ ایک بیان میں کیا ہے۔ یو این اسسٹنس مشن ان افغانستان (UNAMA) کے مطابق یہ انکشاف طالبان کی قید سے چھڑائے جانے والے تیرہ افغانوں سے جمع کردہ شواہد و بیانات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

افغان طالبان کے بارے میں یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امن عمل جاری ہے۔ امریکی اور طالبان نمائندگان کے مابین بات چیت کے کئی ادوار منعقد ہو چکے ہیں۔ مذاکرات میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے وقت سمیت کئی امور زیر بحث ہیں۔ بین الاقوامی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہی ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان دہشت گرد قوتوں کو ملک میں زور پکڑنے نہیں دیں گے۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ تشدد کے بارے میں اطلاع دینے والے جن تیرہ قیدیوں سے بات چیت کی گئی وہ اس ترپن رکنی گروپ کا حصہ تھے جسے حال ہی میں طالبان کی قید سے بازیاب کرایا گیا ہے۔ اس گروپ میں افغان فوجیوں و سرکاری اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے اور ان سب کو پچیس اپریل کے روز صوبہ اروزگاں میں کی گئی ایک کارروائی میں آزاد کرایا گیا تھا۔

یو این اسسٹنس مشن ان افغانستان (UNAMA) کے سربراہ نے اپنے بیان میں کہا، برے سلوک، تشدد، شہریوں کے غیر قانونی قتل اور قید خانوں کی ابتر حالت کے الزامات پر میں گہری تشویش میں مبتلا ہوں۔ قیدیوں کو ہتھکڑیاں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور تقریبا تمام ہی کو باقاعدگی سے مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔ طالبان ان سے یہ کہتے تھے کہ یہ سب امریکیوں اور کابل حکومت کی حمایت کرنے کی سزا ہے۔

افغان جنگ میں امریکا کے تیئس سو فوجی اپنی جانیں کھو چکے ہیں جبکہ اس پر اب تک کئی بلین ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ اب بھی چودہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں تعینات ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کا اب بھی کہنا ہے کہ سلامتی کے حوالے سے افغانستان کی صورتحال اب بھی خطرے سے خالی نہیں۔