دنیائے معرفت کا اجالا علی رضا

 Imam Raza Zareeh

Imam Raza Zareeh

تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس

ائمہ اہل ِبیت خداوند ِمتعال کے مصطفٰی بندے ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے سربرآوردہ و ممتاز مینار ہدایت قرار دیا ہے۔ انہیں اپنی خلقت کے لیے ہادی، اپنے نبیؐ کے وارث، اپنے بندوں کے امام اور مخلوق پر حاکمیت عطا کی ہے۔ یہ رسالت ِ محمدیہ ص کے پاسبان ہیں۔ خدا کی دلیل اوراس کے احکام کی جانب ر ہبری کرنے والے ہیں۔ رسول ِاعظم ص نےان کے اتباع، اطاعت اور امر بجا لانے کا اپنی امت کو حکم دیا ہے۔ دنیا کی ہوس انگیزیوں نے مخلوق ِخدا کو ان مینارگان ِرشد و ہدایت سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ دنیا کے وغاوفریب نے حق کے راستے میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نہ صرف یہ کہ حقوق ِاہل ِبیت کو غصب کیا گیا مگر یہ ان نفوس ِ قدسیہ کے درپے رہے۔ ان کو جلا وطن کرتے رہے اورہرممکن مظالم کانشانہ بنایا۔ ائمہ طاہرین کو جس شدت، سختی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اس کی انہوں نے پرواہ نہ کی بلکہ مسلسل تبلیغ ِرسالت، کَلِمَۃُ اللّٰہ کی سربلندی، اسلام کے مفاہیم کی نشر و اشاعت اور فاسد عقائد و باطل افکار کی لہروں کو روکنے میں مشغول رہے۔ انہوں نے دنیا کو اپنے علوم و معارف سے لبریزکیا تاکہ اسلام کا پرچم کرہء ارضی پہ لہراتا رہے۔ کفار کی شرانگیزیوں، نفاق اور اسلام کے خلاف سازشوں کو ہر موڑ پہ بے نقاب کر کے دنیائے انسانیت پہ احسان ِعظیم کیا۔ نَجْمُ الْہُدیٰ سیدنا امام علی ابن موسی الرضا کی سیرت ِطیبہ اور فکر وفلسفہ بھی اسی نظریے سے عبارت ہے۔

عکس ِجمال ِمظہر یزداں علی رضا
چرخ ِولا کے مہر درخشاں علی رضا
حجرۂ زہرا پاک کی قندیل ِنور بار
کَنْزِ علی کے گوہر تاباں علی رضا
دشمن سے زہر کھا کے بھی شکوہ نہیں کیا
تصویر ِصبر پیکر احساں علی رضا
شاہوں کا بادشاہ ہے کریموں کا تاجدار
ہے کشور ِحسین کا سلطاں علی رضا
جس کو بچھا کے سامنے تیرے میں دوں صدا
ایسا عطا ہو خضر کو داماں علی رضا

سیدنا امام علی ابن ِموسیٰ الرضا کو عالم ِآل ِمحمد کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد نے آپ کے بارے میں اپنی اولاد کو نصیحت کرتے فرمایا؛أخُوْکُمْ عَلِيُّ بْنُ مُوْسیٰ عالِمُ آلِ مُحَمَّدٍ، فَاسْألُوْہُ عَنْ أدْیانِکُمْ وََإحْفَظُوْا مَا یَقُوْلُ لَکُمْ، فَإنِّيْ سَمِعْتُ أبِيْ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ غَیْرَ مَرَّۃٍ یَقُوْلُ لِيْ: إنَّ عَالِمَ آلَ مُحَمَّدٍ لَفِيْ صُلْبِکَ، وَلَیْتَنِيْ أدْرَکْتُہُ فَإنَّہُ سَمِيُّ أمِیْرِ الْمُؤمِنِیْن عَلِيْ؛آپ کے بھائی علی بن موسیٰ عالم ِآل ِمحمد ہیں۔ اپنے دینی مسائل کے سلسلے میں ان سے استفسار کرو اوروہ جو کچھ تم سے کہیں اسے یاد رکھو۔ میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے بارہا سنا ہے کہ فرماتے ہیں بے شک عالم ِآل محمد آپ کی صلب میں ہیں۔ کاش میں ان کو درک کرتا کیونکہ وہ امیر المومنین علی کے ہمنام ہوں گے۔ کَشْفُ الْغَمَّۃْ أرْبَلِيْ
وارث ِاحمد وزہرا ومرتضٰی
نور ِچشم ِحسین وحسن مجتبیٰ
وارثِ عابد وباقر ِپارسا
وارث ِجعفر وکاظم ِباخدا
دلربائے تقی ونقی برملا
دلبر مہدی وعسکری باصفا
معدن ِنور را گوہر بے بہا
تُوْءيْ بَحْرِ سَخا، یارضا یارضا

عمائد ِاہل ِسنت نے آپ کی بارگاہ میں جبین ِ نیازخم کی ہے۔ ابن حجر عسقلانی تَہْذِیْبُ الْتَّہْذِیبْ اورسَمْعانِيْ ألأنْسابْ میں رقم طراز ہیں؛ وَکانَ الْرَّضا مِنْ أھْلِ الْعِلْم وَالْفَضْل مَعَ شَرْفُ الْنَّسَبْ؛ امام رضااہل ِعلم وفضل میں سے تھے اور نسب کے اعتبار سے شرف کے حامل تھے۔ آپ کے علمی آثار میں مسند امام رضا، فقہ رضا،عیون اخبار الرضا اور طب الرضا معروف ہیں۔۲۰۱ھ میں آپ نے بدن اور صحت سے متعلق نگارشات ترتیب دیں جن کی افادیت کے پیش نظرمامون عباسی نے آب ِزر سے کتابت کروائی اور دار ِحکمت میں محفوظ رکھنے کا حکم دیا جس باعث اسے رِسالَۃُ الْذَّہْبِیَۃْ بھی کہاجاتاہے۔آ پ کے تربیت یافتہ عمائد ِاسلام کی تعداد۳۱۸ بیان کی گئی ہے جن میں ہر شعبہ زندگی اور میدان ِعلم وفن کے اکابر قرطاس ِ تاریخ میں نمایاں ہیں۔ آپ کی علمی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ائمہ اہل ِ بیت بعد از پیغمبر کائنات میں تمام صفات اور کمالات کے لحاظ سے ہر زمانے کے تمام انسانوں سے افضل ہیں اور ان ہستیوں میں سے جس نے عالم ِ آل ِمحمد کا لقب پایا وہ شہ ِ خراسان علی ابن موسیٰ الرضا ہیں؛

نور ِنبی کے نور کی نوری کرن رضا
پور ِعلی کے پور کی پوری پھبن رضا
خوشبوئے بوتراب، جمال ِحسن رضا
فخر زمن امام زمن سیم تن رضا
فلک ِولا کے چاند کا ہالاعلی رضا
دنیائے معرفت کا اجالاعلی رضا

کَنْزِ علی کے گوہر تاباں علی رضا : امام رضا کے وجود ِمبارک سے تمام صفات و کمالات میں سے جو صفت سب سے زیادہ ظاہر تھی وہ علم ہے۔ امام کی عظمت اور ممتاز شخصیت کے متعلق تمام مورخین اور محدثین متفق ہیں۔ ثامن ألْحُجَجْ علم و فضل کے اعتبار سے اس منزل پر فائز تھے کہ ہر آدمی آپ کی علمی عظمت کا اعتراف کرتا تھا۔ عبدالسلام ہروی جو امام کے قریبی اصحاب میں سے تھے کہتے ہیں؛ ما رأیْتُ أعْلَمُ مِنْ عَلِيْ بِنْ مُوْ سیٰ ألْرَّضا؛ میں نے علی ابن ِمو سیٰ رضا سے بڑھ کر کسی عالم کو نہیں دیکھا۔ عبدالسلام ہروی کاکہنا ہے کہ؛ ما رأہ ُعَالِمُ إلاّ شَہِدَ لَہُ بِمِثْلَ شَہادَتِيْ؛ صرف میں گواہی نہیں دیتا بلکہ میں نے امام کے دور میں تمام علما میں سے کوئی عالم نہیں دیکھا جس نے آپ کی علمی فضیلت کی گواہی نہ دی ہو۔ اس زمانے کے ہر عالم نے یہ گواہی دی ہے کہ اگر کوئی ہستی علمی مرتبت کے لحاظ سے ہم سے افضل ہے تو وہ فرزند ِ موسیٰ کاظم عَلِيْ ألْرَّضا ہیں۔

فلک ِولا کے چاند کا ہالہ علی رضا
دنیائے معرفت کا اجالا علی رضا

ابن ِحجر بیان کر تے ہیں کہ امام رضا کے ارشاد حکیمانہ، آپ کا عمل درست اور آپ کا کردار محفوظ عن الخطا تھا۔ علمی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم و حکمت میں کامل اور روئے زمین پر بے مثل شخصیت کے مالک تھے۔ مامون عباسی نے بھی آپ کی علمی فضیلت کا بارہا اعتراف کیا۔ جب مامون نے امام کے مدینہ سے سفر کرنے کی خبر سنی تو اپنے معین کردہ شخص رجاء بن ابی ضحاک سے کہاکہ علی ابن ِمو سیٰ رضا اس زمین پر افضل ترین ہستی ہیں اور انسانوں میں سب سے بڑے عالم اور عابد ہیں۔ ایک اور مقام پر علی ابن ِمو سیٰ الرضا کی ولی عہدی کے سلسلے میں مامون نے بیس ہزار افراد کو جمع کر کے خطاب کرتے ہوئے کہا؛ میں نے فرزندان ِعباس اور فرزندان ِ علی کے درمیان تلاش کیا لیکن ان میں سے کسی کو ولی عہد کے لیے علی ابن ِموسیٰ الرضا سے زیادہ لائق، پارسا اور با فضیلت نہیں پایا۔

امام علی رضا نے شعائر ِاسلام کی تحفیظ و ترویج کے لیے علم کا استعمال کیا اور امام کے اسی علمی وقار نے اسلامی تعلیمات کو حیات بخشی اور تغیر وتبدل سے محفوظ رکھا۔ اگر اس وقت کے حالات کا جائزہ لیں تو صورتحال یہ تھی کہ بنی عباس بالخصوص مامون کے دور ِحکومت میں جہاں غیر عربی علوم کو عربی زبان میں ترجمہ کر کے منتقل کیا گیا وہاں پریشانی کا سبب یہ چیز بن گئی تھی کہ ان مترجمین میں دوسرے مذاہب مثلاً زرتشتی، صائبی، رومی اور ہندو سخت قسم کے متعصب لاطینی اور دوسری بہت سی زبانوں کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ان میں سے بعض افراد کی کوشش تھی کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کے مفاد میں کچھ باتیں لکھ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کن عقائد اور غیر اسلامی افکار بظاہر علمی کتابوں کے اندر داخل ہو کر اسلامی ماحول اور معاشرے میں داخل ہو گئے۔ معاشرے کے اس نازک اور سنگین حالات نے یہ ذمہ داری حضرت علی رضاکے کندھوں پر ڈال دی۔ لہٰذا آپ نے علم ِ الٰہی سے ان امواج اور تندوتیز آندھیوں سے اسلامی معاشرے کے علوم اور عقیدے کی حفاظت فرمائی اور خداداد استعداد سے اسلام کے سفینے کو گرداب میں غرق ہونے بچا لیا۔

واقف ِ علم ِشریعت اور طریقت کا ولی
معرفت کا اور حقیقت کا رضا قطب ِجلی
جنتوں سے بھی فزوں تر آپ کے گھر کی گلی
ہے رسول ِپاک کا یہ تیسرا اعلیٰ علی
اے رضا تیری امامت کو ولایت کو سلام
تیری عزت کو اصابت کو اصالت کو سلام

وارث ِعلم نبوی: امام رضا صحیح معنوں میں وارث ِعلوم نبوی ہیں جس کا ثبوت تاریخ بیان کرتی ہے کہ زمانے کے تمام علما وفقہا کے لیے آپ مرجع ِاعلیٰ تھے۔ امام رضا کی تعلیمات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ امام کو کئی مناظروں کا سامنا کرنا پڑا لیکن امام نے اپنے سامنے آنے والے ہر صاحب ِعلم خواہ یہودی ہو، عیسائی ہو، زرتشتی، برہمن، صائبی جو بھی مقابلے میں آیا سب کو جھٹلاکر ثابت کر دیا کہ آپ ہی حقیقی معنوں میں جانشین ِرسول ہیں۔ اگرچہ امام کے مناظرو ں کی طویل فہرست ہے لیکن سب سے اہم مناظرے سات ہیں جو مختلف ادیان اور مذاہب کے پیروکاروں سے کیے جنہیں عالم بزرگوار مرحوم شیخ صدوق نے اپنی کتاب عُیُوْنُ أخْبارِ الْرِّضا میں ترتیب دیا ہے۔ امام علی ابن ِموسیٰ الرضا نے نہ صرف عقائد ِاسلام کا دفاع کیا بلکہ شعائر ِ اسلام کی بھی ترویج فرمائی۔ ان مناظروں میں ایک طرف تو امام انحرافات کا سد باب کرتے تھے تودوسری طرف لوگوں کو اسلامی علوم و معارف سے روشناس کراتے تھے۔عبداللہ بن ایوب خُرَیْبِيْ کہتے ہیں؛

یَابْنَ الْثَّمانِیَۃَ الأءِمَّۃَ غَرَّبُوْا
وَأباالْثّلاثَۃَ شَرَّقُوْا تَشْرِیْقاً
إنَّ الْمَشارِقَ وَالْمَغارِبَ أنْتُمْ
جاءَ الْکِتابُ بِذٰلِکُمْ تَصْدِیْقاً
امام رضا کا مزار ِپرانوار سرزمین ِطُوسْ میں واقع ہے جسے آپ کی مناسبت سے مَشْہَدُ الْرَّضا عرف ِعام میں مشہد مقدس کہا جاتا ہے۔
موسیٰ کاظم کی شاہی ہے کونین پر
راج ہے ابن ِحیدر کا دارین پر
ان کی صورت ہے سرتاپا حسنین پر
ابن ِخاتون ِجنت کی کیا بات ہے
ہیں امام ِرضا سید وتاجور
جن کی سیرت پہ نازاں ہیں شمس وقمر
کھا کے زہر ہلاہل بھی جو چپ رہا
اس شہ استقامت کی کیا بات ہے
کَرِیْمَہء آلِ مُحَمَّدؐ سَیِّدَۃ فاطِمَۃْ بِنْتِ مُوْسیٰ کاظِمْ مَعْصُوْمَہء قُمْ

حضرت فاطمہ معصومہء قم اپنے بھائی علی بن موسیٰ الرضا کے بعد امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں منفرد شخصیت اورروحانی کمالات کے بلند مقام پرفائزتھیں۔ آپ سیدہ نَجْمَۃْ تُکْتَمْ کے بطن ِاقدس سے یکم ذی قعد ۱۷۳ھ متولد ہوئیں۔ اولاد کی روح اوران کے بدن پر والدین کی شخصیت کی تاثیرکا انکارنہیں کیا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ کے وجود ِ مبارک پراس کی ایک خاص قسم کی تاثیر تھی۔ وہ دونوں طرف سے ایسے فضائل کی مالک تھیں جو امام علی بن موسیٰ الرضا کے لیے مختص تھے۔ شیخ مفید اوردیگرعلماء نے امام موسیٰ کاظم کی اٹھارہ بیٹیوں کا ذکر کیا ہے جن میں فاطمہ معصومہ ان تمام دختران میں نمایاں اوربلند مقام کی مالک تھیں۔ شیخ عباس قمی نے امام موسیٰ بن جعفر کی بیٹیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس کے مطابق ان سب سے افضل حضرت معصومہ ہیں۔ شیخ محمد تقی تُسْتَرِيْ اپنی کتاب قاموس الرجال میں لکھتے ہیں کہ سیدہ بیٹیوں کے علاوہ بیٹوں کے درمیان بھی امام رضا کے بعد بے مثل مقام رکھتی ہیں۔ روایات میں حضرت فاطمہ معصومہ کے لیے جو مقام بیان کیے گئے ہیں وہ ان کے دیگربھائیوں اوربہنوں میں نہیں پائے جاتے تھے۔

لہٰذا حضرت فاطمہ معصومہ کا نام دنیا کی مقدس خواتین کے زمرے میں آتا ہے۔اپنے والد اور بھائیوں کی غیر موجودگی میں آپ اہل ِایمان کے إستفتاأت شرعی سوالات کے جواب تحریر کر کے دیتیں جنہیں پڑھ کر آپ کے والد مسرور ہوتے۔ إستفتاأت کا سلسلہ ہنوز قائم ہے اور دنیا بھر سے لوگ فتاویٰ جات کے قم کے علمی مراکز اور مراجع سے رجوع کرتے ہیں۔سیدہ فاطمہ معصومہ قم عقبیٰ میں شفاعت بھی فرمائیں گی۔ امام صادق نے اس بارے میں فرمایا ہے: تدخل بشفاعتہا شیعتنا الجنۃ باجمعہم؛ اس کے علاوہ بھی آپ کی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے اعلیٰ ترین مقام پرفائزتھیں۔ امام رضا نے فرمایا: جو بھی میری بہن معصومہ کی قم میں زیارت کرے گا اس پرجنت واجب ہے۔امام جعفر صادق فرماتے ہیں؛إنَّ لِلّٰہِ حَرَماً وَ ہُوَ مَکَّۃْ وَ إنَّ لِلْرَّسُوْلِ حَرَماً وَ ہُوَ الْمَدِیْنَۃْ وَ إنَّ لأمِیْرِالْمُؤمِنِیْنِ حَرَماً وَ ہُوَالْکُوْفَۃْ وَإنَّ لَنا حَرَماً وَ ہُوَ قُمْ وَسَتُدْفِنَ فِیْہا إمْرأۃٌ مِّنْ أوْلادِيْ تُسَمّیٰ فاطِمَۃْ، فَمَنْ زارَہا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃ؛ اللہ رب العزت کا حرم مکہ میں ہے۔ رسول اللہ کا حرم مدینہ میں ہے۔ امیر المومنین کا حرم کوفہ میں ہے اور ہم سب اہل ِبیت کا حرم قم میں ہے جہاں میری اولاد میں سے ایک جلیل القدر مستور دفن ہو ں گی جن کا نام فاطمہ ہے، جو ان کی بارگاہ میں حاضری دے گا اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ امام رضا سے ملنے عازم ِطوس تھیں کہ طہران ساوِہ کے قریب آپ کے قافلے پر ناصبی خوارج نے حملہ کردیا جس میں آپ کے بھائی شہید ہو گئے۔ آپ کو زخمی حالت میں موسیٰ بن خزرج اشعری شہر قم لے کر آئے جہاں انیس روز قیام کے بعد ۱۰ ربیع الثانی ۲۰۱ھ /۴نومبر ۸۱۶ء بروز منگل آپ کی شہادت ہو گئی۔آپ کے مقدس وجودکے باعث شہرقم میں علمی مراکز عرفان ِآل ِمحمد کے دروس دے رہے ہیں جس کے اثرات کرۂ ارضی پہ غالب ہیں۔

قُمْ میں چمک رہے ہیں خزانے علوم کے
قم روشنی کا شہر ہے قم زندگی کا شہر
ادراک کاجہان ہے یہ آگہی کا شہر
ایسا کہیں نہ ہوگا جہاں میں کسی کا شہر
امن وسکوں کا دیس ہے یہ آشتی کا شہر
ہر اک ورق حسیں ہے کتاب ِحیات کا
مرکز رہا ازل سے یہ روحانیات کا
خوشبو لیے بہشت کی شام وسحر یہاں
امن وسکون ہے نہیں خوف وخطر یہاں
محفوظ ہر قدم پہ حقوق ِبشر یہاں
بی بی کریمۃ زینب ِثانی کا در یہاں
پوری فضا یہاں کی تقدس مآب ہے
اس شہر علم میں سانس بھی لینا ثواب ہے
خوش بخت ہے وہ شخص جو قم کا مکین ہے
قم آنکھ کا سرور ہے دل کا یقین ہے
ہر جلوہ اس شہر کا بہت دلنشین ہے
یہ آسمان ِعلم وعمل کی زمین ہے
اس میکدے میں ساقی ئدوراں کا نام لو
پیاسے ہو تم تو دانش وحکمت کا جام لو
ہر آن ہر گھڑی یہ عبادت گزار لوگ
غم میں نبی کی آل کے یہ سوگوار لوگ
روضوں کے آس پاس کہیں اشکبار لوگ
کرتے ہوئے لبوں پہ دعا باربار لوگ
اسلام کا وقار ہیں جرأت کی شان ہیں
لاریب سب سپاہ ِامام ِزمان ہیں
شفاف شاہراہوں پہ چند روز گھوم کے
منظر ہر ایک پیتا رہا جھوم جھوم کے
ہر ذرہ اس شہر کا رکھا میں نے چوم کے
قُمْ میں چمک رہے ہیں خزانے علوم کے
کیا حوزہ ہائے علم کادلکش نصاب ہے
تعلیم وتربیت کا درخشاں یہ باب ہے
ہونٹوں پہ ذکر ِآل ِپیمبر لیے ہوئے
اور آسماں پہ اپنا مقدر لیے ہوئے
عصیاں کے داغ دامن ِدل پر لیے ہوئے
آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر لیے ہوئے
رویا میں اتنا دل کی سبھی میل دھل گئی
حبس ِابد میں تھا میری ہر راہ کھل گئی
جب جب مراقبے میں بسائی حرم کی یاد
بے چین دل کو چین ملا روح شاد باد
آجائے ذہن وفکر کو ہستی پہ اعتماد
بھر جائے ساعتوں میں یہاں دامن ِمراد
کیا شان ہے کریمہ ء آل ِ رسول کی
جو آیا در پہ اس کی دعائیں قبول کی
دیکھا عقیدتوں کا دریچہ کھلا ہوا
جذبوں کے ابتدا میں تھی اشکوں کی انتہا
اپنی طرح شکستہ دلوں کی سنی صدا
ہر آنکھ تھی سوالی ہر اک لب پہ التجا
دم گھٹ رہا ہے دہر کے کنج ِمزا ر میں
ہم کو پناہ دیجیے اپنے جوار میں
چشمے ابلتے نور کے دیکھے گلی گلی
جس سمت بھی نظر کرو اس طرف روشنی
دانش کدوں سے جھانکتی عرفان وآگہی
بے شک یہی تھی اصل میں تصویر ِزندگی
یہ برکتیں شفیعہء روز ِجزا کی ہیں
خیرات میں ملی ہوئی سب فاطمہ کی ہیں

Dr. Syed Ali Abbas

Dr. Syed Ali Abbas

تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس
ڈائریکٹر امام رضا کلچرل فا ؤنڈیشن
منڈی بہاء الدین