کیا ثالثی کی کوششیں امریکا اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں گی؟

America vs Iran

America vs Iran

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد واشنگٹن نے اپنی فوج مشرق اوسط ارسال کی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق اوسط میں اضافی فوج کی تعیناتی کی بھی منظوری دی ہے۔

ادھر دوسری جانب جنگ کی تیاریوں کے تناظر میں ایران کی طرف سے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایران نے امریکا کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ثالثوں کے ذریعے کوششیں شروع کی ہیں۔ دونوں ملکوں‌ کے درمیان جنگ کے خطرے کے پیش نظر خطے کے ممالک بھی حرکت میں آئے ہیں۔

اس وقت عراق، سلطنت آف اومان، قطر، ایشیائی ممالک میں‌ جاپان نے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے لیے لیے ثالثی کی کوششیں شروع کی ہیں مگر دونوں‌ ملکوں‌ کے درمیان مذاکرات کی راہ میں امریکا کہ وہ 12 شرائط حائل ہیں جن کا اعلان ٹرمپ انتظامیہ کئی ماہ قبل کر چکی ہے۔ امریکا نے ان شرائط کے ذریعے ایران کو مذاکرات کی طرف لانے کی کوشش کی تھی مگر تہران کے غیر لچک دار رویے کے باعث واشنگٹن کو جوہری سمجھوتے سے علاحدگی اور ایران پر پہلے والی پابندیوں کی بحالی کا فیصلہ کرنا پڑا۔

ایرانی قیادت بھی سفارتی کوششیں کر رہی ہے۔ صدر حسن روحانی اور ان کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف خطے میں‌ جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ عالمی برادری اور امریکا کی طرف سے ایران پر دبائو میں کمی لانے کی سفارتی کوشش کے باوجود ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے خطے میں جارحانہ کارروائیوں کی دھمکیاں جاری ہیں۔ پاسداران انقلاب خطے میں موجود اپنی حامی ملیشیائوں کو متحرک کرنے اور انہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں‌ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے منظم کر رہا ہے۔

حالات سازگار بنانے کی کوشش
اگرچہ ایرانی وزارت خارجہ نے امریکا کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ مذاکرات کی تردید کی ہے مگر حالیہ سرگرمیاں ایرانی دعوے کی نفی کرتی ہیں۔ یہ کوششیں اس بات کا واضح‌ اشارہ ہیں کہ ایران، امریکیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے حالات سازگار بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاہم اب تک مذاکرات میں اگر کوئی چیز رکاوٹ رہی ہے تو وہ ایرانی حکومت اور دوسرے اداروں کے درمیان مذاکرات کی نوعیت پر اختلافات ہیں۔

ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقجی نے اتوار کو سلطنت آف اومان کے دورے کے دوران ان خبروں کی سختی سے تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے بھی تہران میں سوموار کے روز ایک بیان میں کویتی نائب وزیر خارجہ خالد الجاراللہ کےاس دعوے کی تردید کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان پس چلمن مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ عباس موسوی کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں‌ ہو رہے ہیں۔

خبر رساں اداروں‌ نے کویتی عہدیدار کے نام منسوب ایک بیان میں کہا تھا کہ 20 مئی کو اومانی وزیر خارجہ کے دورہ ایران سے تہران اور واشنگٹن کےدرمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔

خیال رہے کہ سلطنت آف اومان نے سنہ 2013ء میں امریکا اور ایران کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر مذاکرات شروع کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان ہی کی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور چھ عالمی طاقتیں 2015ء کو ایک معاہدے پر متفق ہوئی تھیں۔

اومانی وزیر خارجہ کے دورہ ایران کے چند روز بعد ایرانی نائب وزیر خارجہ مسقط پہنچے۔ گذشتہ جمعرات کو امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگان اورٹیگاس نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ امریکا نے ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکراتی کوششیں شروع کی ہیں۔

تاہم دوسری جانب عراق کے وزیر خارجہ محمد عبدالحکیم نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ بغداد امریکا اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے تاہم انہوں‌ نے دونوں‌ حریف ملکوں‌ کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی بات چیت کی تفصیل بیان نہیں کی۔