یورپی الیکشن کے نتائج، میرکل کی حکومت کے لیے بے یقینی کا سبب

European Elections

European Elections

جرمنی (جیوڈیسک) کم از کم جرمنی میں تو یورپ نواز جماعتیں یورپی پارلیمان کے لیے منعقدہ الیکش میں کامیاب رہیں۔ تاہم یہاں سوشل ڈیموکریٹس کی ناکامی کے اثرات اتنے منفی ہو سکتے ہیں کہ اس سے برسر اقتدار اتحاد کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یورپی پارلیمان کی نشستوں کے لیے انتخابات سے قبل خدشہ تھا کہ انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند پارٹیاں بہت زیادہ کامیاب نہ ہو جائیں۔ کم از کم جرمنی، آسٹریا اور ہالینڈ میں تو ایسا نہیں ہوا۔ الیکشن کے بعد سامنے آنے والا یہ ایک مثبت پہلو ہے۔

یہ بات صاف ظاہر ہے کہ قوم پرستوں اور یورپ نواز افراد کے مابین تقسیم نے لوگوں کو باہر نکل کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے پر راغب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک میں ووٹر ٹرن آٹ کی شرح کافی بلند رہی۔ یہ بات بھی کافی اہم ہے کہ تیس برس سے کم عمر کے کافی زیادہ لوگوں نے اس بار ووٹ ڈالا۔ یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ نوجوان اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ یورپ کیا ہے اور مستقبل میں وہ کس طرح رہنا چاہتے ہیں۔ تیس برس سے کم عمر کے گروپ میں فاتح واضح طور پر ماحول دوست گرینز جماعت رہی، جو ماحول کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے۔

جرمن سوشل ڈیموکریٹس (SPD) کے لیے چھبیس مئی کی تاریخ تباہی کا پیغام لائی۔ ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کو یورپ کی سطح پر صرف سولہ فیصد عوامی تائید حاصل ہوئی اور صرف یہ ہی نہیں، جرمن ریاست بریمن میں اتوار کو لوکل الیکشن بھی ہوئے۔ ایس پی ڈی پچھلے تہتر برس سے اس ریاست پر حکمرانی کر رہی تھی تاہم پہلی مرتبہ ان الیکشن میں سی ڈی یو کا امیدوار کامیاب رہا۔ یوں یہ ایس پی ڈی کے لیے دہرا سیٹ بیک ثابت ہوا۔ اس کے اثرات بھی سامنے آئیں گے اور منفی ہو سکتے ہیں۔ یہ پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ جماعت کو اپنی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔

برسلز میں آئندہ دنوں کے دوران یہ بحث جاری رہے گی کہ اہم پوزیشنوں پر کون سی پارٹیوں کے نمائندگان فائض ہوں گے۔ جرمنی میں البتہ مباحثوں کے موضوعات ذرا زیادہ بنیادی ہوں گے، جیسا کہ حکمران اتحاد کب تک حکومت میں رہے گا اور خود کو اور ملک کو تکلیف دیتا رہے گا؟

یہ بھی ممکن ہے کہ اس ویک اینڈ کے بعد چانسلر انگیلا میرکل کا چودہ سالہ دور اتحادی جماعت ایس پی ڈی کی وجہ سے اپنے اختتام کو پہنچ جائے اور یوں جرمنی میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہو۔ اس وقت بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔

یہ ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پول کا اداریہ ہے۔