ماسکو (جیوڈیسک) روسی دارالحکومت ماسکو میں طالبان کے نمائندوں اور افغان سیاستدانوں کے ایک گروپ کے درمیان ایک ملاقات ہوئی ہے۔ اس میٹنگ میں افغانستان میں قیام امن کی امکانات پر بات چیت کی گئی۔
طالبان کے نمائندوں کے وفد کی قیادت مذاکرات کار اعلیٰ ملا برادر اخوند کر رہے تھے۔ اُن کی قیادت میں طالبان کے وفد نے افغان سیاستدانوں کے اُس گروپ کے ساتھ ملاقات کی جس میں سینیئر علاقائی رہنما شامل تھے اور وہ امیدوار بھی شامل تھے، جنہوں نے اشرف غنی کی صدارت کو اگلے صدارتی الیکشن میں چیلنج کر رکھا ہے۔
منگل اٹھائیس جولائی کو ہونے والی ملاقات میں طالبان کے نمائندوں نے اپنے سابقہ موقف پر اصرار کیا کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے یہ اہم ترین ہے کہ تمام غیر ملکی افواج ملک سے نکل جائیں۔ دوسری جانب بین الاقوامی سفارت کاری کا سلسلہ بھی شروع ہے تا کہ اٹھارہ سالہ جنگی صورت حال کا خاتمہ ہو سکے۔
اس خصوصی ملاقات کے بعد طالبان کے مذاکرات کار اعلیٰ ملا برادر اخوند نے ٹیلی وژن پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی امارت امن کی خواہشمند ہے لیکن اس سلسلے میں پہلا مرحلہ رکاوٹوں کا خاتمہ ہے۔ مبصرین کے مطابق طالبان کے ایک سینیئر لیڈر کا پیغام ٹیلی وژن پر نشر کرنا ایک دلیرانہ اقدام قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ افغنستان کے طول و عرض میں طالبان اپنی مثبت شناخت کے متمنی ہیں۔
دوسری جانب کابل حکومت کی اعلیٰ اختیاراتی امن کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیلی کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر افغان شہری عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہو رہے ہیں اور اس مسلح سلسلے اور خون خرابے کی صورت حال کے خاتمے کے لیے ایک باوقار اور انصاف پر مبنی طریقہٴ کار کو اپنانا ضروری ہے۔
طالبان اور امریکی سفارتکاروں کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے مذاکراتی عمل جاری ہے۔ اس میں امریکی فوج کی واپسی کے نظام الاوقات پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ایسا تاثر بھی ابھرا ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکی سفارت کاروں نے امریکی اور نیٹو کی فوجیوں کے انخلا پر ممکنہ ڈیل کے ابتدائی مسودے پر اتفاقِ رائے کر لیا ہے۔ ابھی اس ممکنہ سمجھوتے کی مزید کچھ تفصیلات کو طے کرنا باقی ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ طالبان نے براہ راست افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ طالبان غنی حکومت کو ایک کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔ ماسکو میں اٹھائیس مئی کو ہونے والی میٹنگ کو کابل حکومت کے ساتھ نتھی کرنا ممکن نہیں تاہم خیال کیا گیا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی وقت طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بھی مذاکرات کا امکان پیدا ہو جائے گا۔