اسلام آباد (جیوڈیسک) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نیب ہیڈ کوارٹر میں بیان ریکارڈ کرانے کے بعد روانہ ہوگئے جب کہ پارٹی قائد سے اظہار یکجہتی کے لیے آنے والے کارکنان اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جس کے بعد کئی کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا۔
نیب کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو آج تفتیش کے لیے طلب کیا گیا تھا جن کی نیب ہیڈ کوارٹر آمد سے قبل ہی کارکنان کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی، اس موقع پر کارکنان نے احتجاج کیا۔
نیب ہیڈ کوارٹر پہنچنے کے کچھ دیر بعد بلاول بھٹو زرداری روانہ ہوگئے اور اس دوران اسلام آباد کے مختلف مقامات پر پولیس اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کے درمیان کشمکش جاری رہی۔
ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کو نیب کی جانب سے سوالنامہ دیا گیا ہے جس میں 32 سوالات پوچھے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی سے زرداری گروپ آف کمپنیز کے اکاؤنٹس کے حوالے سے سوالات کیے گئے ہیں اور انہیں 12 جون تک ان سوالات کے جواب دینا ہیں۔
پولیس کی جانب سے نادرا ہیڈ کوارٹر چوک کو خاردار تاریں اور رکاوٹیں لگا کر بند کیا گیا جب کہ ایوب چوک پر کارکنوں کو آگے جانے سے روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
ڈی چوک پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی جنہیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا بھی استعمال کیا گیا۔
پولیس نے کارسرکار میں مداخلت کرنے پر ڈی چوک سے پیپلز پارٹی کی خاتون کارکن سمیت 3 کارکنان کو حراست میں لے لیا، حراست میں لی گئی پیپلز پارٹی کی خواتین رہنماؤں میں شازیہ طہماس، صوبیہ، مسرت ہلال شامل ہیں۔
اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ رات نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں بلاول بھٹو زرداری کی نیب میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو شہر میں داخلے سے روک دیا تھا۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان کی دیگر شہروں سے اسلام آباد آنے کی وجہ سے حالات خراب ہوسکتے ہیں اس لیے انہیں روکنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔
نیب ہیڈ کوارٹر پیشی سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ احتجاج کی کال نہ دیے جانے کے باوجود کارکنان اسلام آباد پہنچنا شروع ہوگئے۔
بلاول بھٹو نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈرتے ہیں تبدیلی والے، پاکستانیوں کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات گئے نوٹی فکیشن جاری کر کے خیبرپختونخوا، پنجاب اور اسلام آباد میں مخالفین کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جانب سیکرٹری جنرل پیپلز پارٹی نیر بخاری نے کارکنوں کو روکنے کے سرکاری حکم نامے کی شدید مذمت کی ہے۔
نیر بخاری کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے لبادے میں آمریت منظور نہیں، احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جانا نئی بات نہیں، پارٹی قیادت کے خلاف جعلی اور جھوٹے مقدمات بغض اور عناد کا تسلسل ہیں۔
نیر بخاری نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے خوف سے مخالفین کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، پارٹی قیادت ایک بار پھر سرخرو اور مخالفین شرمندہ ہوں گے۔