اسلام آباد (جیوڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نیب میں پیشی کے موقع پر پی پی کارکنان پر پولیس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اپنی نالائقی کو چھپانے کے لیے سازشیں شروع کردیں اور عمران خان مخالفین کے خلاف ریاست کو استعمال کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب میں پیشی کے موقع پر اسلام آباد میں کوئی ایمرجنسی یا دفعہ 144 نافذ نہیں تھی، ہم نے احتجاج کی کوئی کال نہیں دی تھی اور نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آپ کے ساتھی آپ کے ساتھ پر امن طریقے سے نہیں جاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ نیب میں پیشی پر حکومتی رویہ قابل مذمت تھا، حکومت اور عمران خان کی طرف سے پی پی کارکنان پر حملہ کیا گیا، واٹر کینن اور آنسو گیس استعمال کی گئی، یہ ہمارے کارکنان اور ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں، ہم اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور نہ اصولوں اور نظریے پر پر کوئی سمجھوتا کریں گے، اعجاز شاہ اپنا پرانا آمرانہ طریقہ استعمال کررہے ہیں جو نظر آرہا ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ نام نہاد جمہوریت میں یہ نہیں ہونا چاہیے، جمہوریت میں ہر پاکستانی کا حق ہےکہ وہ جمہوری حق استعمال کرے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ خان صاحب ایک ساش پر اتر آئے ہیں کہ وہ ملک کے ہر ادارے پر قبضہ کریں اور ون پارٹی رول نافذ کریں، ان سے چھوٹے سے بلاگر اور صحافی سے سیاستدان تک کی مثبت تنقید برداشت نہیں ہورہی، عوام کو محسوس ہورہاہے کہ خان نے تبدیلی کے نام پر دھوکا دیا ہے، عمران خان سے یہ حکومت چل نہیں پارہی، یہ نااہل نالائق ہیں اور ان میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں، معیشت برباد ہورہی ہے اور مزدوروں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے اپنی نالائقی کو چھپانے کے لیے سازشیں شروع کردیں اور فورس استعمال کررہی ہے، بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے خلاف جو تشدد آج کیا گیا اس کی ویڈیو منگوارہا ہوں، ہمارے پاس تمام قانونی راستے ہیں جنہیں استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں نیب جو مشرف نے بنایا یہ کالا قانون ہے، جیسے ہر آمر کا قانون کالا ہوتا ہے یہ بھی ایک کالا قانون ہے، یہ ادارہ سیاسی انتقام اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا ہے، ہمارے پورے کیس میں رول آف لاء اور قانونی طریقہ استعمال نہیں کیا جارہا لیکن ان تمام اعتراضات کے باوجود ہم ہر ادارہ کو ہمشیہ ترجیح دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ادارے بنیں اور پاکستان قانون کے مطابق چلے، قانون اچھا ہے یا برا ہم اس کا سامنا کررہے ہیں، آج اس کیس میں پیش ہوا جب اس کمپنی کا شیئر ہولڈر بنا تو اس وقت میں اسکول کا بچہ تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ نیب کے دفتر میں تقریباً 20 منٹ انٹرویو ہوا، جن سوالوں کے جواب دے سکتا تھا دیا، نیب نے مجھے سوالنامہ دیا ہے تاکہ اپنے وکلا سے مشورہ کرکے اس کا جواب دے سکوں۔
ان کا کہنا تھاکہ ہم نے ہمیشہ دُہرے نظام کا سامنا کیا اور آج بھی کررہے ہیں، کل بھی باعزت بری ہوئے اور آج بھی باعزت بری ہوں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان سب چیزوں کا اثر معیشت پر ہوتا ہے اس لیے کہتے ہیں کہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے، اس ملک میں بیوروکریٹ اور بزنس مین کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انہوں نے لاہور میں پروفیسرز اور ڈاکٹرز کے ساتھ نیب کا رویہ دیکھا ہے، اس طرح کے رویے سے ملک میں خوف پھیلتا ہے، حکومت نے ملک کے 80 فیصد بزنس مینوں اور بیورکریٹس کو چور قرار دیا ہے اس وجہ سے معیشت نہیں اٹھ رہی، اس وقت جو قدم اور رویہ اس حکومت کا ہے یہ وہی رویہ ہے جو مشرف کا تھا اور اگر آج اسلام آباد کی یہ صورتحال ہے تو آپ سوچیں فاٹا میں کیا ہورہا ہے، جہاں دوسرا رخ دکھانے کے لیے صحافی بھی موجود نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ عمران خان کی حکومت جمہوریت پسند ججوں کو نکال کر اپنے پسندیدہ جج بھیجنا چاہتی ہے، یہ دھمکی اور دباؤ سے نیب کو چلا رہے ہیں اور اب بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں، یہ خوش نہیں ہے کہ نیب ان کا 99 فیصد کام کررہا ہے، یہ چاہتے ہیں نیب سمیت سپریم کورٹ کے جج، اپوزیشن، صحافی بھی سلیکٹڈ ہوں، ہمیں سلیکٹڈ حکومت نامنظور ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ پیپلزپارٹی نے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ عید کے بعد سڑکوں پر نکلیں گے، جس طریقے سے فاٹا سے کراچی تک دیکھ رہے ہیں، جمہوریت پر حملے ہورہے ہیں، انسانی اور معاشی حقوق پر حملے ہورہے ہیں، عمران خان اپنے مخالفین کے خلاف ریاست کو استعمال کررہے ہیں، ایسے میں جمہوریت پسند جماعتوں اور سیاستدانوں پر فرض ہے کہ وہ باہر نکلیں اور عوام کو بتائیں کس طریقے سے حکومت ان کا حق چھین رہی ہے، پیپلز پارٹی نے ملک میں ہر سازش دیکھی ہے، یہ اس لیے سازش نظر آرہی ہے کہ چیئرمین نیب کو متنازع انٹرویو نہیں دینا چاہیے لیکن دے دیا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ یہ حکومت شروع نیب سے ہوتی ہے اور ختم بھی نیب پر ہوتی ہے، یہ جو آج کھڑی ہے یہ نیب کی وجہ سے ہے، صحافی کے کالم میں چیئرمین نیب کی جانب سے کہا گیا کہ حکومتی نمائندوں کے کیس کھولتا ہوں تو حکومت گرجائے گی اور پھر دو دن میں بعد ویڈیو آتی ہے، اس معاملے پر عمران خان اور ان کے معاون خصوصی سے تفتیش ہونی چاہیے، انہوں نے اپنے معاون کو ہٹایا تو اتنا تو مان لیا کہ وہ ملوث تھے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ اس ملک نے کافی کچھ دیکھا، سب دعا کرتے ہیں کہ وفاق قیامت تک پاکستان رہے، ملکوں کے ساتھ رہنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، جب ہر پاکستانی کو بولنے اور ووٹ کا حق حاصل ہے اور جمہوریت ہو تو وفاق مضبوط ہوتا ہے، ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جب ہم نے جمہوریت پر سمجھوتا کیا تو ملک کو نقصان ہوا اور بنگلا دیش بنا، آج لوگ سوال پوچھ رہے ہیں، ان کو نطر آرہاہے کہ آج ہمارا پارلیمانی نظام خطرے میں ہے، پہلے اگر بنگلا دیش بنا تھا تو آج کونسا اور کتنے دیش بن سکتے ہیں اس لیے سمجھتے ہیں جب تک جمہوریت رہے گی، جب تک وفاقی پارلیمانی اسلامی نظام ہے تب تک اس ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ حکومت ہر پوائنٹ پر یوٹرن لیتی ہے، ہم کورٹ اور نیب کا سامنا کررہے ہیں لیکن علیم خان، علیمہ خان، خان صاحب اور جہانگیر ترین سمیت مشرف کی باقیات نیب کا سامنا نہیں کررہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دُہرا نظام چلے، اگر سندھ میں کسی مل مالک کا بے نامی اکاؤنٹ ہے تو وہ جیل جائے گا تو پھر سب کے لیے یہی نظام ہونا چاہیے، ایسا نہیں ہوسکتا مل مالک پی ٹی آئی کا ہو تو اس کا بے نامی اکاؤنٹ حلال ہے، عمران خان نے خان نے خودکہا تھا دو نہیں ایک پاکستان مگر اب اس پر بھی یوٹرن لے لیا۔
چیئرمین پی پی نے عید کے بعد سڑکوں پر احتجاج کرنے اور عوامی رابطہ مہم کا بھی اعلان کی۔