اسلام نے انسانی معاشرے کی اصلاح کو انبیاء کی بنیادی ذمہ داری قراردیا ۔انبیاء کی تعلیمات سے انحراف ہونے کی وجہ سے معاشرے میں شریعت اسلامی کی تفہیم میں غیرمعمولی کمی واقع ہونے سے معاشرے میں اضطراب و بے چینی کے ساتھ غلط تصورات و عقائد فروغ پاتے جارہے ہیںجس کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔انہی میں سے تصوف کی غلط تعبیر و تشریح بھی افسوس ناک ہے۔حضرت علی کا ارشاد ہے کہ اگر فقر آدمی ہوتاتو میں اسے قتل کردیتا۔یہ بہت بڑے دکھ کی بات ہے کہ بعض کند ذہن لوگ اپنے عمل سے اسلام کی دعوت کو مشکلات سے دوچارکردیتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ غربت و افلاس کی زندگی بسر کرواور فقیری کے فضائل و مناقب بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ یہ لوگ ایسے خطرناک تصورات کن دلائل سے قائم کرلیتے ہیں۔فقیری و غربت صرف انسان کو بنفس نفیس متاثر ہی نہیں کرتی بلکہ اس کے نقصانات پورے معاشرے کی عقل و فکر اور اخلاق پر ظاہر بھی ہوتے ہیں ۔کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان خالی پیٹ اور تنگدستی کی حالت میں بہتر تفکیر کرسکتاہے حالانکہ ان کے قرب و جوار میں نعمتوں کی فراوانی بھی ہو۔محمد بن الحسن الشیبانی روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون امام ابوحنیفہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔تو امام صاحب نے فرمایا کہ اللہ تجھے ہلاک کرے تم نے میرے ذہن سے چالیس مسائل فقہی خارج کردیئے ۔اسی طرح ایک روایت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کسی بھی ایسے شخص سے مشورہ نہیں کرتے تھے جس کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو۔اس کی بنیادی وجہ یہ قراردیتے تھے کہ بھوکے شخص کا دماغ سوچنے اور سمجھنے کی تفکیر سے محروم ہوتاہے کہ اس کی سوچ کا محور و مرکز شکم سیری ہوتاہے وہ بہتر سوچ نہیں دے سکتے ہیں۔
فقیری خاندانی زندگی پر بھی مضر اثرات چھوڑتی ہے،نوجوان نان نفقہ و مہر ادانہ کرسکنے کی وجہ سے شادی نہیں کرسکتا۔دین ایسے لوگوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ صبر و تحمل اور عفت و عصمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔”انسان عزت و عصمت کو لازم پکڑے رکھے تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ مال میں استغناء عطاکردے”۔اسی وجہ سے بہت سے خاندانوں نے غریب مردوں کے ساتھ بیٹی بیاہنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ ان کی فکر کی درستگی کے لیے ارشاد فرمایا کہ بیٹیوں کا نکاح کرو نیک و صالح لوگوں کے ساتھ ممکن ہے کہ فقیر اللہ کے فضل سے مال دار ہوجائے کہ اللہ زیادہ وسیع علم رکھتاہے ۔یعنی رشتوں کے اختیار کے وقت صرف مالداری برابری ہی نہیں بلکہ دینی و اخلاقی برابری کا بھی لحاظ رکھا کریں۔ہم دیکھتے ہیںبہت سے خاندان اس لیے ٹوٹ جاتے ہیں کہ خاوند نان نفقہ کی ذمہ داری ادانہیں کرسکتے اور فقہ اسلامی نے اس کی اجازت دی ہے۔
غربت بنیادی سبب بنی اولاد کو قتل کرنے کاکہ انسان کو خدشہ لاحق ہوتاہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکے گا۔اسلام نے اس کو حرام قراردیا کہ اولاد کو فقیری کی وجہ سے قتل کردیں جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں رزق دیتاہے تو انہیں بھی اللہ رزق دے گابیشک ان کا قتل کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔آپۖ سے پوچھا گیا کہ کونسا گناہ سب سے بڑا ہے تو آپۖ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو جبکہ اس نے تمہیں پیدا کیا اور پوچھا گیا اس کے بعد تو آپۖ نے فرمایا کہ تم اپنے بچوں کو اس ڈر سے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے۔اسلام معاشی تنگ دستی کی حالت میں بھی انسانی رویوں کی درستگی کا اہتمام کرتاہے۔
غربت اس قدر نقصان دہ اور خطرناک ہے کہ حضور نبی کریمۖ نے کفر اور فقر سے اللہ کی پناہ طلب کی ہے۔اسی لیے قرآن میں ارشاد باری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالدار بنادیا۔یہ جھوٹی وگھڑی روایتیں ہیں کہ نبی اکرمۖ فقیر و غریب تھے یہ جاہل صوفیا کے اقوال ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔فقیری بہت بڑا خطرہ ہے ملت و امت کے لیے ۔ فقر و غربت کی وجہ سے صنعتیں اور ذرائع آمدن ختم ہوجاتے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ انسان باہم اشتراک سے افلاس کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ شہر و ملک کو مال کی فراوانی عطاکردے۔کیونکہ غربت و افلاس یہ اللہ کے امتحانات میں سے ایک امتحان ہے۔
اگر فقر مال و دولت کی غلط تقسیم کی وجہ سے اور طاقتور لوگ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔معاشرے میں چند لوگ مال دار باقی نادار ہوچکے ہوں ۔تو یہ معاشی بدحالی شرپسندوں کی پیداکردہ ہے اور اس کے نتیجہ میں لوگوں کے مابین گروہیت و تقسیم رواج پاتی ہے اور نفرت و حسد کے جذبات پروان چڑھ جاتے ہیں اور محبت و الفت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے۔اسلام کا نظام معیشت ہر گز یہ سبق نہیں دیتاکہ معاشرے کا ایک طبقہ تو شاہی محلات و جاہ و حشم کے ساتھ رہیں دوسری جانب ایک طبقہ غربت و افلاس کی چکی میں پستے ہوئے خیموں اور شاہرائوں اور عوامی مقامات پر زندگی بسر کریں۔ایک طبقہ گندگی کے ڈھیر سے کھانا تلاش کرے جبکہ دوسرا گوشت و پرندوں کو غذا بناکر باقی ماندہ راستوں میں گرادے۔
غربت کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ انسان کے دل سے ملک و ملت کی ہمدردی اور دفاع کا جذبہ ختم ہوجاتاہے کہ وہ فقیر یہ سوال کرتانظر آتا ہے کہ کیا یہ ہمارا وطن ہے کہ ہم اس کا دفاع کریں جبکہ ہمیں کھانے کو دوقت کی روٹی میسر نہیں اولاد کی تعلیم و تربیت مشکل ہوچکی ہے دوسری جانب طاقتور لوگ ہمارا سب کچھ ہضم کیے جارہے ہیں تو پھر ہمیں اس ملک و ملت کی فکر کی کیا ضرورت پڑگئی ہے کہ ہم اس کی حفاظت کا انتظام کریں جبکہ وہ ہمارا خیال و لحاظ و پاس بھی نہیں رکھتے۔فقیری صرف ملک کے لیے خطرہ نہیں بلکہ خودانسانی معاشرے کے لیے بھی زہرناک ہے جب کسی شخص کے پاس صحت بخش غذاکھانے کے پیسے نہیں ہوں گے تو کیسے ممکن ہے کہ اچھی صحت کا حامل ہوگا اور اس وجہ سے معاشرے میں وبائیں پھوٹ پڑنے کا خطرہ موجود ہے۔
اسلام لعنت بھیجتاہے ایسے لوگوں پر جو جھوٹے تصوف کے ذریعہ لوگوں کو فقرکے فضائل سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہیں گے اور فقر پر صبر کرنا بڑے اجر کا باعث ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو ملک و ملت کی ترقی نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی زمین میں اصلاحی فکر پیش کرتے ہیں جیسے حضرت یوسف نے اپنی رائے سے مصر کو معاشی مشکلات سے نکالنے کی تدبیر یں پیش کیں جس کے نتیجہ میں ملک و ملت خوشحال ہوگئے ۔اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھوکہ رسول اللہۖ نے اللہ سے غربت و فقر کی پناہ مانگی ہے۔ اسلامی معاشرے کی بقاکے لئے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ سماج کے جمیع طبقات میں شریعت اسلامی جو مکمل ضابطہ حیات ہے کی شرح و بسط سے آگہی ضروری ہے۔