انسان اپنے رب کو منانے کیلئے جب ارادہ کرتا ہے تو اپنے حالات کے مطابق وہ کئی راستے اختیار کرتا ہے۔ دین اسلام میں اس کیلئے رہنمائی موجود ہے۔ اسلام میں ریبانیت یعنی دنیا سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے جنگلوں، ویرانوں میں جا کر بسنے کی بجائے مخلوق خدا اور اجتماعیت میں رہتے ہوئے اللہ کی قربت حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ رمضان المبارک یوں تو پورا ماہ ہی برکت والا ہے لیکن اس میں آخری عشرہ کی ایک اپنی فضیلت ہے۔ اسی عشرہ میں اعتکاف اور لیلۃ القدر جیسی عظیم رات امت مسلمہ کو عطا کی گئی ہے۔
اعتکاف کی اہمیت و فضیلت پر کتب احادیث میں کئی حدیث موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ مَنِ اعْتَکَفَ یَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْہِ اللّہُ، جَعَلَ اللّہُ بَیُنَہُ وَ بَیُنَ النَّارِ ثَلاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ اَبْعَدُ مِمَّا بَیُنَ الْخَافِقَیُنِ “جو شخص اللہ کی رضا کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کافاصلہ کر دیتا ہوں۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے”۔ (طبرانی المعجم الاوسط:7326) حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ َحَجَّتَیُنِ وَ عُمْرَتَیُنِ. “جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے”۔ (بیہقی، شعب الإیمان:3966 )
اعتکاف چند روز دنیا کی الجھنوں سے بے نیاز ہو کر اپنے معبود سے تعلق جوڑنے کی کوشش کا نام بھی ہے۔ اپنی قریبی مساجد میں اعتکاف کے دوران انفرادی عبادت سے ثواب کا حصول تو ممکن ہوتا ہے لیکن تربیت کی کمی رہ جاتی ہے۔ جبکہ اجتماعی اعتکاف میں ثواب کے ساتھ تربیت بھی ملتی ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر میدان میں دور جدید کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کا حقیقی تصور پیش کیا ہے۔ ایسے ہی تربیت کیلئے اجتماعی اعتکاف کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اجتماعی اعتکاف کا آغاز آج سے 30سال قبل شروع کیا۔ اور آج اعتکاف کا یہ اجتماع” شہر اعتکاف ” کی شکل اختیار کر چکا ہے۔جو کہ اس وقت حرمین شریفین کے بعد دنیا کے سبب سے بڑا اعتکاف ہے۔ 1990ء میں 50افراد کی ساتھ ماڈل ٹاؤن کی مسجد سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ تعداد میں اضافے کی وجہ سے 1992ء میں لاہور کے ٹاؤن شپ میں منتقل کیا گیا۔ بعد میں اس کو جامعہ المنہاج کا نام سے موسوم کیا گیا۔ اور آج اس جامعہ المنہاج میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ معتکف ہوتے ہیں۔ خواتین کیلئے الگ سے منہاج گرلز کالج میں اعتکاف گاہ قائم کی گئی ہے۔ویڈیو لنک کے ذریعے بیرون ممالک میں کئی مقامات پر اجتماعات اس شہر اعتکاف کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔اس شہر اعتکاف میں معتکف ہونے والے افراد کی سحری و افطاری سے لیے کر ان کی دس دن کی رہائش اور دوران اعتکاف ان کی تربیتی شیڈول کا جائزہ لیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی انتظامی صلاحتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
شہر اعتکاف میں آنے والے معتکف کیلئے تربیت کیلئے باقاعدہ تربیت کا پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔ نماز تہجد سے لے کر شب بیداری تک اسی ٹائم ٹیبل کے مطابق وقت گزارا جاتا ہے۔ منہاج یونیورسٹی کے طلباو طالبات معلم کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے شہر اعتکاف میں حلقہ جات کی صورت میں دروس قرآن دیتے ہیں، فقی مسائل کیلئے مفتی اعظم مفتی عبدالقیوم خان صاحب روزانہ نماز عصر کے بعد فقی نشست سے مخاطب ہوتے ہیں۔ نماز تراویح میں قراء حضرات روایتی انداز کی بجائے انتہائی خوبصورت آواز میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کے اس انداز میں معتکف ایسے محو ہوتے ہیں کہ جیسے ان کے دلوں پر قرآن کا فیض کا نزول ہو رہا ہو۔ نماز تراویح کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری کا تقوی، حسن اخلاق، حسن معاملات، حقوق اللہ، حقوق العباد جیسے اہم موضوعات پر خطابات ہوتے ہیں۔ جو شہر اعتکاف میں آنے والے معتکف کی روزہ مرہ زندگی کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
رمضان المبارک کے بابرکت ماہ میں شہر اعتکاف میں دس دن گزارنے والوں کو اپنے رب سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑنے کا درس دیا جاتا ہے، روزہ مرہ زندگی میں مخلوق خدا کے ساتھ حسن معاملات سمجھائے جاتے ہیں۔ اپنے اخلاق کو سنوارنے کی تعلیم دی جاتی ہے، صبر و تحمل کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس شہر اعتکاف نے کئی لوگوں کو اسلام کے حقیقی تصور سے روشناس کراتے ہوئے اس نفسا نفسی کے دور میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے۔