جناب فواد چودھری خبروں میں رہنے کا فن جانتے ہیں ۔سیدھی سی بات ہے بھوکے میڈیا کو خبر تو چاہئے ہوتی ہے۔کبھی وہ عاطف میاں کی تعیناتی کے مسئلے پر ان لوگوں کو جاہل کہہ دیتے ہیں جو قادیانیوں کی مخالفت کرتے ہیں ۔ان کا کچھ نہیں بگڑتا ریاست مدینہ کے دعوے دار کو ایک مصیبت پڑ جاتی ہے۔عمران خان نے جدہ میں ایک تقریب میں بات کی تھی کہ تحریک انصاف کو صرف ڈر پی ٹی آئی سے ہے اور مجھے یہ ڈر ہے کہ یہ وہی ڈر ہے جو وہ احسن رشید کے ہوتے ہوئے ذولٹیک کے ہال میں میری اور ذوالقرنین علی خان کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
عمران جدہ،ریاض بھڈانی،بابر اکرم فرخ رشید ،زاہد اعوان،راشد علی خان،مرزا ندیم الحق،شہباز بھٹی اس بات کے گواہ ہیں وزارت اطلاعات میں ٹی وی اسٹیشن کے مزدوروں کے درمیاں لڈیاں بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔یہ بھائی اتنے سادہ ہیں کہ اپنی ہی فوجوں کو کچل دینے کا فن بھی آتا ہے کبھی رنجیت سنگھ کو پنجاب کا سب سے بڑا مجاہد اور غیرت مند قرار دیتے ہیں اور کبھی فرماتے ہیں کہ راجہ پورس نے سکندر اعظم کو شکست دی تھی۔وزارت میں آئے تو وزیر اعظم کے تیس سالہ پرانے دوست کو نشانے میں رکھ لیا کوئی تین سال پہلے جب یہ پی ٹی آئی میں نہیں آئے تھے انہوں نے نعیم الحق پر تیر چلایا تھا اپن لوگ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں میں نے اسی وقت کالم لکھا تھا کہ فواد کی نظر پارٹی سیکرٹری اطلاعات پر ہے انوکھے لاڈلے نے جو چاہا اسے مل گیا ۔واقعی ان کی پہنچ دور تک تھی یہی وجہ ہے کہ نعیم الحق کو فوجیں پیچھے کرنا پڑیں۔میری ان سے اس وقت سے نہیں بنی جب یہ پیپلز پارٹی میں تھے تو ان کے فیس بک پر دوستوں سے لڑائی سلمان تاثیر کے قتل پر ہو گئی ۔ہم بھی تو سنکی لوگ ہیں مسجدوں مدرسوں کے پڑھے ہوئے ختم نبوت ٧٤ کے اسیر۔کوئی چھ سال پہلے بحث شروع ہو گئی پیپلز پارٹی کے دور میں یہ ان کے نفس ناطقہ تھے وہاں ایک پٹ کلٹہ پڑا ہوا تھا کہ ہائے سلمان تاثیر قتل ہو گئے۔میں نے دخل در معقولات کی اور لکھ دیا اسے کس نے کہا تھا کہ آسیہ ملعونہ کے سر پر ہاتھ رکھے اور کہے کہ اس کالے قانون کو ختم کرائوں گا۔ایک لڑائی سی ہو گئی موصوف نے مجھے ان فرینڈ کر دیا۔اس گھرانے سے بڑا تعلق ہے جس دن وزیر بنے چودھری شہباز حسین سے کہا کہ نوجوان ہے تو تیز مگر اس کے لبرل خیالات کو کنٹرول کیجئے۔مجھے علم تھا کہ اس معاشرے میں لوگ کبھی دینی شعائر کا مذاق پسند نہیں کریں گے۔ان مدارس کو انگریز تہس نہس نہیں کر سکا کوئی اور کیا کرے گا۔
ہوا وہی ہر اس موقع پر جہاں چپ رہنا تھا موصوف نے بلا تکان بولنا شروع کیا ۔تحریک کے دنوں میں یہ تیزیاں جملے بازیاں چل سکتی ہیں لیکن جب اقتتدار میں آ جائیں تو پھر گیئر اور لگانا پڑتا ہے۔ہمارے پیارے دوست فیاض چوہان کی تیزیاں انہیں لے ڈوبی۔آج انہیں ٣٨ فوکل پرسنز کی لسٹ میں ایک ترجمان کی حیثیت ملنے پر صمصام بخاری کے ہاتھوں ایک نوٹیفیکیشن ملا دل دکھی ہوا پنڈی نے پی ٹی آئی کو دو بڑے لوگ دئے جن میں ایک عامر کیانی تھا اور دوسرے چوہان ،بد قسمتی سے کیانی کی جیب پھٹی ہوئی تھی اور چوہان کی زبان۔آج دل دکھی ہے کہ جسے کوشش کر کے وزیر بنوایا وہ اب ان ٣٨ لوگوں میں سے ایک ہو گا۔خدا کی قسم میں ہوتا تو معذرت کر لیتا کہ ان فوکل پرسنسز سے زیادہ تو اب بھی فیاض کی فالوئینگ ہے۔کسی نے ہم سے بھی تو پوچھا ہو گا؟جواب دیا جہاں ہیں بہتر ہیں اللہ نے اظہار کی طاقت بھی دی ہے اور گفتار کی بھی۔جب کبھی کسی نے عزت سے کوئی ذمہ داری دی کریں گے۔
فواد چودھری سے وزارت اطلاعات لے لی گئی اس بندے نے میڈیا کے ملازمین کے گھروں میں صف ماتم بچھا دی۔فردوس عاشق اعوان نے آ کر سنبھالا دیا ندیم افضل چن نے مرہم رکھے آج اللہ کے کرم سے میڈیا سے خوشگوار ہوائیں آ رہی ہیں۔نیو کے شہباز اور عامل صحافیوں کے لیڈر مظہر اقبال اس دن پوٹھی کی کوٹھی میں ملے عمر چیمہ بھی موجود تھے ان کی موجودگی میں میڈیا نے فردوس عاشق کی تعریف کی۔طراریاں اور تیزیاں ہر جگہ کام نہیں آتیں۔فواد صاحب کو وزارت سائینس میں بھی آرام نہیں چلتے چلتے ہی مولوی صاحبان کو چٹکی کاٹ جاتے ہیں۔پاکستانی کالے لبرلز کو پتہ نہیں کیا تکلیف ہے۔در اصل اللہ اور اس کے رسولۖ کی مخالفت پر لتر پڑتے ہیں اور کبھی کبھار جان بھی دینی پڑتی ہے آسان سی بات مولوی کو گالی دینا ہوتی ہے وہ دے لیتے ہیں۔
اب وہ وزیر سائینس اور ٹیکنالوجی ہیں وہاں جا کر مفتی منیب الرحمن اور دیگر علماء کی پگ کو چھیڑ دیا ایک شرارتی لڑکے کی طرح کچھ نہ کچھ کرنے کا فن آتا ہے۔کہتے ہیں قمری کیلنڈر دوں گا اور اس کی منظوری ہو گی۔حضور قمری کیلنڈر کیا کرے گا اسی کے اولیں سالوں میں سعودی عرب کام کرتا تھا قمری کیلنڈر سے تنخواہیں ملا کرتی تھیں رمضان اس کیلنڈر سے چلتا تھا ایک بار ہوا کہ کیلنڈر کے مطابق صبح روزہ تھا لیکن عید کا چاند دیکھا گیا تو قمری کیلنڈر کو سائیڈ پر رکھ کر عید منائی گئی یہ دور جلاة الملک خالد بن عبدالعزیز کا دور تھا میں ان دنوں الحاج حسین علی رضا اینڈ کمپنی میں کیلو گیارہ جدہ پر ڈیوٹی کرتا تھا۔شاہ خالد نے قوم سے معذرت بھی کی اور عید منائی گئی۔
عید کے بعد ہم ڈیوٹی پر آئے تو محمد حسن الحربی جو کمپنی کے سپروائزر تھے انہوں نے استفسار پر جب یہ بتایا کہ اب ہم کیلنڈر پر ہی چلیں گے میں نے سوال اٹھایا کہ شوال کی تو عید کے حوالے سے گیارہ ہے اور قمری کیلنڈر دس بتا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا جو حکومت کہتی ہے کرو زیادہ جرح نہ کرو۔
ویسے بھی کسی سال ٣٦٥ دن ہوتے ہیں اور کسی سال ٣٦٦ لیپ کے سال میں عیسوی کیلنڈر اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے۔ وزیر سائینس اور ٹیکنالوجی کو وزیر مڈ بیڑھ کہہ دیا جائے تو بہتر ہے۔ہم جتنے بھی گنہ گار ہوں فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرت ہوں لیکن اپنے علماء کی عزت دل سے کرتے ہیں ایک اور رائے یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ عید کی جائے کیوں بھائی؟کیا آپ کو علم ہے کہ جس وقت سعودی عرب میں عید کی نماز پڑھائی جاتی ہے اس وقت دنیا کے مخلتف علاقوں میں رات ہوتی ہے ہم علماء کے اندر جا کر پارٹی کا پروگرام پیش کرنے جاتے ہیں میں تو کئی مساجد میں خطبے بھی دے چکا ہوں اگلی صفوں میں دو زانو ہو کر علماء کو سنتا ہوں اور ایسے ہی ہمارے کئی لیڈران۔لیکن افسوس ہے کہ ہم جیسے لوگوں کی کیتی کتری پر خاک اڑا دی جاتی ہے۔یوم تاسیس کی تقریب میں ہمارے ایک متعلقہ وزیر کا بھی یہی رونا تھا۔مفتی قاسم قاسمی پکڑ پکڑ کر علماء اور مشائیخ کو لاتے ہیں صاحب اپنی ایک بات اور بیان سے معاملہ خراب کر دیتے ہیں۔دوسرے معنوں میں پی ٹی آئی کی بیڑیوں میں وٹے ڈال دیتے ہیں۔با با خدا را یہ ظلم نہ کریں اللہ نے دیا ہے تو جر کے کھائیں۔جس دن مولوی دل سے خلاف ہوا تو اسے کون روک پائے گا؟پاکستان ترقی کرے گا یا مولوی کے ساتھ دینا ہو گا۔گویا مولوی نہیں پاکستان کی گاڑی کی بریکیں ہیں۔کبھی قیام پاکستان میں علماء اور مشائیخ کا کردار بھی تو دیکھیں۔ایک بار ایک لبرل نے سی ای سی کی میٹینگ میں کہا کہ خان صاحب پاکستان کا مطلب کیا؟کا نعرہ تو لگا ہی نہیں تھا جس کے جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ پھر الگ کیوں ہوئے؟آپ کو پسند نہیں پارٹی چھوڑ دیں ۔یہ سال ٢٠٠٨ تھا جب عمران خان بلدیاتی کونسلروں کو بھی دعوت دے رہے تھے وہ لبرل نظر نہیں آئے۔ہمیں کوئی کہے گا تو ہم نہیں چھوڑیں گے البتہ وہ پارٹی جو اقبال کی تعلیمات کا نعرہ لگاتی ہے وہ پارٹی جو ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے اس کے نظریات سے کسی کو کوئی تکلیف ہے تو راستہ ناپے۔ہم نے اس پارٹی کو اپنا تن من دھن دیا ہے اپنے معاشی حالات برباد کئے ہیں۔ہم اسے کسی اول فول خیالت والوں کی نذر نہیں کریں گے۔
ایک بار ایک فرد نعیم الحق کے پاس آئے کہ پارٹی نے جامعہ حقانیہ کو فنڈنگ کیوں کی ہے بیت سے ملکوں کے سفیر ناراض ہیں۔نعیم الحق نے جواب دیا عمران میرے اور آپ سے زیادہ سمجھدار ہے کام سے کام رکھیں۔ابھی ہنی مون دن ہیں کارکنان ذہن میں رکھیں کہ مشکل وقت میں کیسے خان کے ساتھ ڈٹ جانا ہے۔آج شمیم آفتاب نے ان کارکنوں کو افطار پر بلایا جو دھرنے میں نظر آتے تھے میں نے کہا وزراء کہاں ہیں جواب دیا جن کے سہارے ہم اسمبلیوں میں پہنچے میں نے انہیں اسلام آباد کلب بلایا ہے واہ کیا بات کی۔جی چاہتا ہے سب کا نام لوں آپا یاسمین فاروقی،فرح آغا بہن،نرگس جبیں، آمنہ، عابدہ راجہ صبائ،طیبہ ابراہیم ،عنبرین ترک،فوزیہ ارشد،آغا اعزاز جعفری، جمیل عباسی،سیمابیہ طاہر،ہارون ہاشمی،نوید افتخار ،ایاد کیانی،نوید کیانی ،نوید افتخار چودھری،صداقت علی عباسی،شیخ فہد،فرقان ،اور بے شمار کارکن تھے۔ان کی کاوشوں پر کتاب لکھی جا سکتی ہے یہ وہ لوگ تھے جو نیا پاکستان بنانے والے مستری تھے۔کوئی اینٹ لگانے والا کوئی گارا بنانے والا اور کوئی ڈھونے والا۔عمران خان نے اس ٹیم کے ساتھ لڑائی لڑی اور فتح پائی آپ لوگوں کو وزارتیں دلوائیں خدارا نئے پاکستان کی بلڈنگ کھڑی کرنے میں اس کا ساتھ دیں۔کارکنوں کا خیال کریں۔ان کی تضحیک نہ کی جائے۔کالم کے آکر میں کہوں گا کہ شمیم آفتاب بہن آپ کا شکریہ۔آفتاب بھائی آپ کا بھی آپ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔اور جناب وزیر سائینس اور ٹیکنالوجی سے درخواست کروں گا کہ ضد چھوڑیں کام سے کام رکھیں۔