ماحولیات تبدیلی سے برصغیر کو لاحق خطرات

Environment Change

Environment Change

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ان مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے 1974ء سے ہر سال 5 جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔قدرتی ماحول سے مراد زمین پر یا زمین کے ایک حصے پر موجود وہ تمام جاندار اور بے جان اشیاء جو قدرتی طور پر موجود ہوں ہیں۔ یہ ماحول کی ایک قسم ہے جس میں جانداروں اور بے جان چیزوں،موسم، آب و ہوا اور قدرتی وسائل کا آپس میں تعلق ہوتا ہے اور اسی سے انسانی بقا اور اس کے معیشت کا دارومدار ہوتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث، دنیا نازک موڑ پر پہنچ گئی۔ موسمی تبدیلیوں کے خطرات ان ممکنہ خطرات کو کہا جاتا ہے جو موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مختلف حالتوں، آفات اور صورتوں سے لاحق ہو سکتے ہیں۔عالمی برادری موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات بھانپ چکی ہے۔ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ کے چیف سائینٹفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ ماحولیات، موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں اور نیشنل اکیڈمی آف سائنس، آئی پی سی سی اور ورلڈ میٹرولوجیکل ایسوسی ایشن متفق ہیں کہ موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر اب کوئی اختلاف نہیں ہے۔

دنیا کی سلامتی کو درپیش خطرات میں موسمی تبدیلی بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے گلوبل وارمنگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار، متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا تیزی سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ گزشتہ اور رواں برس کسی خطے میں سخت ترین سرد موسم کے ریکارڈ ٹوٹے تو کہیں گرمی نے کرہ ارض پگھلا کر رکھ دیا۔ کہیں سیلابوں اور طوفانوں نے تباہی مچائی تو کہیں طوفانی بارشوں نے بے حال کردیا۔پاکستان میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے نقل مکانی اور ذرائع آمدن کی تبدیلی جیسے مشکل فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہے۔ پاکستان اب بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 907 ملین ڈالر (تقریباََ 95 ارب روپے) کا نقصان ہو رہا ہے، جو سالانہ جی ڈی پی کا 0.0974 حصہ بنتا ہے۔اور 2ہزارکے قریب لوگوں زندگی بازی ہارجاتے ہیں۔

جیسے جیسے درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا ویسے ویسے ہی زمین پر زندگی کم ہوتی جائے گی۔ اسی وجہ سے موجودہ حالات میں اقوام عالم ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے اقدامات کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف عمل ہیں لیکن پاکستان جو اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دسویں ملک میں شمار کیا جاتا ہے وہاں اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

امریکا میں گزشتہ 80 برس کے اعداد و شمار بھی اس مطالعاتی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں، جہاں اگست اور ستمبر میں بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ جب کہ زیادہ درجہ حرارت کے حامل موسم گرما کے مہینوں میں شرح پیدائش میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ حدت کی لہر، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑی ہے، شرح پیدائش میں کمی کا سبب بن رہی ہیں، حالاں کہ سال کے گرم موسم میں جنسی سرگرمیوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یعنی زیادہ جنسی سرگرمی کے باوجود بچوں کی پیدائش میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ سے وابستہ دنیا کے ممتاز ترین ماحولیاتی اور آب و ہوا کے ماہرین نے کہا ہے کہ اگر اگلے چند برسوں میں ہم نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو محدود کرنے سمیت دیگر اہم اقدامات نہ کئے تو اس کے بعد سیلاب، طوفان، موسمیاتی شدت، خشک سالی، فصلوں کی تباہی کا عمل تیز ہوسکتا ہے جس کے پورے سیارے پر غیرمعمولی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ممالک میں بہت پیچھے ہے لیکن جرمن واچ کے مطابق یہ دنیا کے اْن سات ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے شدید متاثر ہوں گے۔

لندن کی انوائرمنٹل جسٹس فاؤنڈیشن کے مطابق دنیا میں 26 ملین افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے اور 2050ء تک 500 سے 600 ملین لوگ مزیدہجرت پر مجبور ہونے کے ساتھ شدید دیگر خطرات سے بھی دوچار ہوں گے۔سائنس دان عالمی حدت میں اضافہ کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدا ر کا فضا میں اخراج قرار دیتے ہیں جبکہ حیاتیاتی ایندھن، قدرتی گیس، کوئلہ، تیل سے توانائی پیدا کرنے کے ماحول پر منفی اثرات انسانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ مضر رساں ہیں۔ کوئلہ توانائی کا ایک یونٹ پیدا کرنے میں قدرتی گیس سے 70 فی صد زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑ کر ماحول کو تباہ کرتا ہے۔دیگر یہ کہ عوام بھی ماحول کی تباہی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں جن میں
جنگلات کی بے دریغ کٹائی،جنگلات کے رقبہ میں آگ،بلند و بالا عمارتیں،برھتی ہوئی آبادی،گاڑیوں کی بہتات وغیرہ شامل ہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں زیر بحث آ چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق 1920ء سے عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں 1.9ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں برف پگھلنے سے ڈیم بھر رہے ہیں، نئی جھیلیں بن رہی ہیں اور موسمی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی آئی پی سی سی کے مطابق بڑے پیمانے پر پانی ضائع ہو رہا ہے۔

پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے مہلک اثراث چند برسوں سے واضح ہونے کے باوجود اس حساس اور سنگین مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں، اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام میں 1989ء سے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں۔ ویب آف سائنس کے مطابق واٹر ٹاور آف ایشیا ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم، قطب شمالی و قطب جنوبی کے بعد برف کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور یہی پہاڑی سلسلے دریائے سندھ کی روانی کے ضامن بھی ہیں۔پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہیں، شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے سربراہ آصف انعام کی تحقیق کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر کے کئی حصے زیر آب آ چکے ہیں جبکہ 2050ء تک سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین پانی میں ڈوب چکے ہوں گے۔

ماہرین ماحولیات متعدد مرتبہ اس خدشہ کا اظہار کر چکے ہیں کہ سمندر کی سطح میں تیزی سے اضافہ کے باعث 2060ء تک دو کروڑ سے زائد آباد ی کا شہر کراچی زیر آب آ سکتا ہے، سندھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں سمندر کی سطح میں اضافہ زیر زمین پانی میں کمی خشک سالی، سیلاب و دیگر موسمی تبدیلیوں سے جڑے مسائل کی وجہ سے ہزاروں گھرانے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ متعد د گھرانے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں میں بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

مستقبل میں موسمی تبدیلیوں کی ہولناکی سے لاکھوں خاندان ایسے ہی خطرات سے دوچار ہوں گے۔ صنعتی سرگرمیوں کے دو بڑے مراکز چین اور بھارت کے درمیاں میں واقع ہونے کے باعث پاکستان گوناگوں ماحولیاتی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار پانی پر ہے جبکہ ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے بڑے حصے کو صاف پانی میسر نہیں، پانی کے بحرا ن میں مبتلا اس ملک کی پانی سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں۔ آبی ذخائر بنانے اور دریاؤں، ندی، نالوں کا پانی نامیاتی و صنعتی و دیگر آلودگی سے محفوظ رکھنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ