سعودی عرب (جیوڈیسک) سعودی عرب کی میزبانی میں اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے ایک سربراہی اجلاس میں ہفتہ یکم جون کو امریکی قیادت میں ایک نئے امن منصوبے سے قبل فلسطینیوں اور ایران کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں سعودی عرب کی حمایت کی گئی۔
خلیج کی قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب میں مسلمانوں کے لیے مقدس ترین شہر مکہ سے ہفتہ یکم جون کے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکا کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے جو نیا امن منصوبہ تشکیل دیا جا رہا ہے، اس میں ممکنہ طور پر واشنگٹن خطے میں اپنے اہم ترین اتحادی ملک اسرائیل ہی کی حمایت کرے گا۔
لیکن اسی خدشے کے پیش نظر مکہ میں اسلامی تعاون کی تنظیم کی سمٹ میں شرکاء نے اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت کی۔ ساتھ ہی خطے میں سعودی عرب اور ایران کے مابین پائی جانے والی رقابت کے تناظر میں خطے کی عرب ریاستوں نے حسب توقع سعودی عرب کی ہم نوائی کا راستہ اپنایا۔
او آئی سی کا یہ اجلاس مکہ میں ہونے والا تیسرا اجلاس تھا اور اس مرتبہ اس کا مرکزی موضوع ایران کے ساتھ کشیدگی ہی تھی۔ اس سمٹ میں شریک رہنماؤں، خاص طور پر خلیجی عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے امریکا کے اس اقدام کی مذمت کی، جس کے تحت واشنگٹن نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا ہے۔ ساتھ ہی امریکا نے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیل کے حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے، اور یہ بات بھی عرب رہنماؤں کی طرف سے مذمت کا سبب بنی۔
اس سربراہی اجلاس کی اہم بات ایران اور ترکی کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کی غیر حاضری تھی۔ اس اجلاس کے شرکاء نے اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ممالک کا بائیکاٹ کریں، جنہوں نے یروشلم میں اپنے سفارتی مشن کھول لیے ہیں۔
یروشلم ایک مقبوضہ شہر ہے، جسے اسرائیل اپنا ابدی حصہ قرار دیتا ہے۔ ماضی میں امریکا اس شہر پر اسرائیل اور فلسطینیوں کی ملکیت کے دعووں کے حوالے سے دو فریقی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ لیکن پھر دسمبر 2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کی کئی عشروں سے چلی آ رہی سیاست میں یکدم ایک بڑا موڑ لیتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا اور ساتھ ہی امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا گیا تھا۔
یہ پیش رفت اس لیے بھی مروجہ سفارتی اصولوں کے منافی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ اپنا عشروں پرانا تنازعہ حل ہو جانے کے بعد فلسطینی مستقل میں اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا دارالحکومت یروشلم کے مشرقی حصے کو ہی بنانا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیئرڈ کُشنر مشرق وسطیٰ میں حتمی قیام امن کے لیے جس امن منصوبے پر کام کر رہے ہیں، اسے خود ڈونلڈ ٹرمپ ‘صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ بھی قرار دے چکے ہیں لیکن خود فلسطینی اسے پہلے ہی سے مسترد کر چکے ہیں۔ اس معاہدے کی تفصیلات اسی مہینے بحرین میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پیش کی جائیں گی۔
اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک کی موجودہ تعداد 57 ہے اور مکہ میں ہونے والے اجلاس میں اس تنظیم کی رکن ریاستوں نے ایران کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں نہ صرف ریاض حکومت کی حمایت کی بلکہ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے بھی اپنے خطاب میں تنبیہ کی کہ خلیج کے علاقے میں ‘دہشت گردانہ‘ حملے عالمی منڈیوں کو تیل کی ترسیل کے عمل کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
شاہ سلمان کا نام لیے بغیر اشارہ واضح طور پر ایران کی طرف بھی تھا۔ اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ ایک طرف تو حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے ساحلوں کے قریب چار مال بردار بحری جہازوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جن میں سے دو سعوی عرب کے آئل ٹینکر تھے، اور پھر یمن کی جنگ میں ایران نواز حوثی باغیوں نے بھی دو اسے ڈرون حملے کیے تھے، جن کے نتیجے میں سعودی عرب کی ایک انتہائی اہم تیل پائپ لائن بند کرنا پڑ گئی تھی۔
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
اس تناظر میں سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اسلامی تعاون کی تنظیم کی سمٹ کے شرکاء سے کہا، ”ہم اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا ہدف صرف سعودی بادشاہت اور خلیج کا علاقہ ہی نہیں بلکہ اس طرح عالمی منڈیوں میں تیل کی محفوظ ترسیل کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
مکہ میں او آئی سی کی سمٹ سے اپنے خطاب میں اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے کہا، ”سعودی عرب کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا مطلب عرب اور اسلامی دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہو گا۔‘‘ یہ ایک ایسا موقف تھا جس کی اجلاس میں شریک دیگر ریاستوں کی طرف سے تائید بھی کی گئی اور سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا گیا۔
اس سمٹ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے شرکت نہ کی اور انقرہ کی نمائندگی ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے کی جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی بھی اس سربراہی کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔