پیٹو کے پیٹ کو اگر غور سے دیکھو تو لگتا ہے کہ ”پیٹ سے ہو”حالانکہ مرد کبھی پیٹ سے ہوتا نہیں،ہمیشہ پیٹ سے ”باہر ”ہی ہوتا ہے۔پیٹ سے باہر ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ دُورسے دیکھنے والوں کو اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ بندہ آرہا ہے یا جا رہا ہے۔اور بوجوہ موسم گرما حدتِ شمس سے بچائو کی خاطر سر کو ڈھانپ رکھا ہو تو لوگ اس لئے عزت وتکریم کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کوئی خاتون پیٹ سے ہے۔کچھ بھی ہو پیٹو ہمیشہ دو باتوں کی فکر میں ہوتا ہے ایک پیٹ اور دوسرا پیٹ پوجا۔یعنی ہر وقت اسی فکر میں۔۔۔۔۔۔پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا۔۔ویسے پیٹ پوجا بھی پیٹو حضرات، کام اور پوجا سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔کہ دونوں میں انہماک کی ضرورت ہوتی ہے۔پوجا میں توجہ ہٹ جائے تو شیطان حملہ آور ہو جاتا ہے اور کھانے میں انہماک بٹ جائے تو ساتھ بیٹھا ساتھی کھانے پر دھاوا بول دیتا ہے۔اس لئے اصل قسم کے پیٹو کھاتے ہوئے نہ کسی کی باتوں پر کان دھرتا ہے اور نہ ہی کسی کے کہنے پر ہاتھ روکتا ہے۔
پیٹو لوگوں کا کہنا ہے کہ دسترخوان سے اس وقت اٹھا جائے جب آپ میں اٹھنے کی ہمت نہ رہے،اس لئے پیٹو اس وقت تک کھاتا رہتا ہے جب تک اس میں کھانے کی سکت باقی رہتی ہے۔ایک بار کسی دعوت میںایک پیٹو قسم کے انسان سے ضرورت سے اتنا زیادہ تناول فر ما لیا کہ چلنا دوبھر ہو گیا ،ساتھیوں نے سوچا کہ چلو سہارا دے کر اس کو گھر تک چھوڑ آتے ہیں،دو لوگوں نے سہارا دیا اور اس کے گھر تک لے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا کہ اس کے گھر والی اسے آکر لے جائے،بیوی باہر آئی پوچھا کیا ماجرا ہے ،وجہ بتائی گئی کہ زیادہ کھا لیا تھا لہذا ہم اسے سہارا دے کر گھر چھوڑنے چلے آئے ہیں۔بیوی ایک بار پھر متجسس سوال ہوئی کہ کیا یہ اپنے پائوں پر چل کر آئے ہیں۔لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم نے سہارا دے رکھا تھا اور یہ اپنے پائوں پر ہی چل کر آئے ہیں۔بیوی بولی ابھی رکو میں واپس آتی ہوں ،بیوی پلٹی تو خالی ہاتھ نہ تھی بلکہ ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے وہ اپنے خاوند کی دھلائی کرتے ہوئے چیخے جا رہی تھی کہ”اس نے اپنے بزرگوں کی ناک ہی کٹوا دی ،ان کے بڑوں کو تو لوگ ریڑھیوں پر ڈال کر لایا کرتے تھے او ریہ خود اپنے پائوں پر چل کر آیا ہے گویا چاہتا تو ابھی کچھ اور بھی کھا سکتا تھا۔
جیسے شرفاو اشرافیہ اور عزت دار لوگ اپنی ناک رکھنے کے لئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں ایسے ہی پیٹو اپنے پیٹ کے لئے سب کر گزرتا ہے،شائد اسی وجہ سے پیٹ کو پاپی پیٹ بھی کہا جاتا ہے۔میرے علاقہ میں ایک ایسا ہی پیٹو ہے جو رسم قل پر بھی اتنی ہی خوشی سے لنگر کھاتا ہے جتنا دعوت ولیمہ پر کھانا۔ہفتہ بھر اگر مسجد میں کسی فوتیدگی کا اعلان نہ ہو تو لوگوں سے شکوہ کناں ہوتا ہے کہ کیا زمانہ آگیا ہے اب لوگوں نے اس علاقہ میں مرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔اور تو اور جو لوگ ایسی رسومات کو مذہبی حصہ خیال نہیں کرتے ان کے رسم قل اور چالیسویں پر انہیں پورے محلہ میں خوار کر رہا ہوتا ہے کہ یہ کون سی رسم ختم ہے کہ جس میں ختم کرنے کو کھانا ہی نہ ہو۔
پیٹو کے لئے سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے پائوں دیکھنے سے یکسر قاصر رہتا ہے جبکہ پائوں کے لئے اس شخص کا پیٹ تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ویسے پائوں کے حوصلہ بھی داد دینی بنتی ہے کہ جو صرف آٹھ انگلیوں اور دو انگوٹھوں پر ایسا پہاڑ سا پیٹ اٹھائے پھرتے ہیں گویا یہ واحد انگلیاں ہیں جو پیٹو کو نچا نہیں سکتیں الٹا پائوں سوچ رہے ہوتے ہیںکہ”اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے”۔پیٹو کا ایک المیہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے ”من پسند” شخص سے مکمل بغل گیر بھی نہیں ہو سکتا ،بس دو پیٹ ایسے ملنے کا اک منظر پیش کرتے ہیں جیسے دو دیو قامت پہاڑ ایک دوسرے کو دفع کر رہے ہوں۔ایسے شخص کو پرائی لڑائی میں بھاگنا پڑجائے تو اور بھی مشکل میں پھنس جاتا ہے،یعنی اگر کوئی اس کے پائوں تلے آگیا تو وہ شخص گویا زندگی سے ہی گیا اور اگر موصوف کہیں گر گئے تو سمجھو گر ہی گئے کیونکہ سرکار کا خود سے اٹھنا تو محال ہوگا ہی کوئی دوسرا بھی انہیں اٹھانے کے لئے ہاتھ نہیں دیتا،سمجھو ایسا بندہ ویسے ہی گر گیا جیسے کبھی کبھار کوئی حکومت گرتی ہے یا غیر مستحکم حکومت میں روپیہ گرتا ہے کہ جس کے اٹھنے کا کوئی چانس نہ ہو۔ایسے شخص کو تو دوران لڑائی کوئی دوسرا بندہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ نیچے بیٹھ جائو ،ہمیں بھی لڑائی دیکھنا ہے۔
پیٹو قسم کے بندے سے تین موقعوں پر پچنا ہی چاہئے،جب یہ چھینک لے رہا ہو،قہقہہ لگا رہا ہو یا پھر لمبا ڈکار۔متذکرہ تینوں فعل میں زیادتی سے پیٹ خود کش دھماکہ کی طرح پھٹ کر اپنے اور آپ کے پرخچے بھی اڑا سکتا ہے۔ویسے موٹاپا اور گنجا پن ایسی چیزیں ہیں جس کی خواہش کوئی نہیں کرتا یہ خود بخود آجاتی ہیں اور یہ دونوں کسی دوسرے کے پاس دیکھ کر حسد بھی نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں پولیس مین کے پیٹ کو بین الاقوامی جبکہ مولانا کے پیٹ کو شہرت دوام حاصل ہے،کہتے ہیں IMF نے پاکستان کو پہلی بار قرض دینے کی حامی انہیں دو قسم کے پیٹوں کو دیکھ کر بھری تھی،کہ کھاتا پیتا ملک ہے واپس کر ہی دے گا۔ہمیں اس قرض کی ایسی لت لگی کہ اب تک ہم اس قرض کو ”کھا اور پی”ہی رہے ہیں۔ایک بات تو طے ہے کہ جب تک آئی ایم ایف ہمارا ”کھانا پینا”بند نہیں کرتا ہم قرض پہ قرض لیتے رہیں گے ،موجودہ حکومت اس کوشش میں ہے کہ مہنگائی اس قدر کر دی جائے کہ لوگ خودبخود کھانا پینا بند کر دیں تاکہ قرض کی قسط بآسانی ادا ہو سکے۔لیکن کہاں جناب یہ بات کرتے کرتے تو چچا غالب مر گئے ان کی جان نہ چھوڑ سکی تو ہم کس باغ کی مولی ہیں،بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پولیس مین اور مولوی اپنے پیٹ کی بنا پر جہاں بھی جائیں وقت سے قبل ہی پہنچ جاتے ہیں۔دونوں ہی کمرے میں بعد میں داخل ہوتے ہیں ان کے پیٹ پہلے جلوہ نما ہو جاتے ہیں۔زیادہ تر پیٹو کا پیٹ چٹخارہ پن کی وجہ سے بڑھتاہے۔،ویسے بھی چٹخارے پن میں پاکستانی قوم کا کوئی ثانی نہیں۔ایک وقت میں دو وقت کا کھانا وہ بھی مصالحہ زدہ کھا کر لمبے لمبے ڈکار لے کر، seven up اس لئے پی رہے ہوتے ہیں کہ پیٹ کی گیس up والے ”رستے” ہی سے نکل سکے۔اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو رہا ہو تو ENO کا ساشے سیون اپ کو ہضم کرنے کے لئے ہاتھ میں تھامے بیٹھے ہوتے ہیں۔بندہ پوچھے اگر اتنی ہی تکلیف اٹھانی ہے تو تھوڑا کھا ہی کم لے۔میرا ایک ہم عصر کم وبیش ایک کلو تکہ کھا کر بھی شکوہ کناں ہورہا ہوتا ہے کہ آج کل کہاں اتنا کھایا جاتا ہے،وہ تو ہم اسے یاد کرواتے ہیں کہ جناب آج اتنا ،اتنا کر کے آپ نے کل کا بھی تناول فرمالیا ہے۔
میرا ملک جب سے معرض وجود میں آیا ہے زیادہ تر اس کا واسطہ”پیٹو ”حضرات سے ہی رہا ہے جنہوں نے خوب جی بھر کر اسے کھایا،ڈکارا اور بیرونِ ملک کی راہ لی تاکہ جو پاکستان سے بچایا تھا اسے وہاں جا کر کھایا جا سکے۔کھانے میں بھی ان سیاسی پیٹو حضرات کا کوئی ثانی نہیں انہوں نے میرے وطن کو ایسے کھایا جیسے عرب ممالک میں ”مجبوس”کی ڈش ،کہ جس میں ثابت بکرے کو جیسے عربی نوچ نوچ کر کھا رہے ہوتے ہیں۔کچھ ایسا ہی حشر میرے ملک کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا اور جا رہا ہے۔صد شکر خدا کا کہ جس نے ابھی تک اس وطن کو سلامت رکھا ہوا ہے،وگرنہ ہم تو اپنی دانست میں اسے کھا پی چکے ہیں۔خدا سلامت رکھے میرے پاکستان کو ہر ”پیٹ اور پیٹو”سے،آمین۔