مملکت اسلامیہ میں عید کی تیاریاں عروج پر تھیں،بچے عید کے کپڑے سلوارہے تھے اور لوگوں کے درمیان پوچھ گچھ کا سلسلہ بھی جاری تھا کی تم نے کیا خریداری کی ،کیا بنایا وغیرہ لیکن شہزادے خاموش تھے اور صبر کا دامن تھامے ہوئے تھے ،چہروں پر اداسی چھائی ہوئی تھی ۔والدہ محترمہ بچوں کا یہ غم نہ دیکھ سکی اور اپنے (شوہر) خلیفة المسلمین کے سامنے گذارش کر بیٹھی اور انکو مجبور کر ہی دیا کہ بچوں کے لیئے عید کے کپڑے بنوالیئے جائیں مگر افسوس استطاعت نہ تھی۔بالآخر امیرالمئومنین نے ناچار قلم اٹھائے اور چند الفاظ حصول قرض برائے دو ماہ تحریر کر ڈالے۔ یہ خبر سن کر بچے پر امید ہوگئے اور خوشی سے کھل اٹھے مگر والدہ گومگوں کی کیفیت میں تھی کہ معلوم نہیں قرض ملے گا بھی کہ نہیں؟مہتمم بیت المال اس درخواست کو حکم کا درجہ دیتے ہیں یا شرعی جواز تلاش کرنے بیٹھ جائیگے۔
بہرحال جب درخواست مہتمم بیت المال تک پہنچی تو انہوں نے جواب میں وہ تاریخی الفاظ رقم کر دئیے جو رہتی دنیا تک ہر صاحب اقتدار کو غیرت دلاتے اور ایمانداری کا سوال کرتے رہیں گے،(کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ قرض لینے والا دو ماہ تک زندہ رہیگا)۔ اوراس جواب کا رد عمل بھی بے مثال تھا اور کیوں نہ ہوتا اس وقت امیرالمئومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اسلامی سلطنت کے سربراہ تھے ۔ انہوں نے جواب پڑھتے ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ انہوں نے ایسے شخص کو بیت المال کا خزانچی مقرر کیا (جو دیانتدارہے)اور اطمینان کا سانس لیا ۔یہ حال تھا اس وقت کے خلیفةالمسلمین حضرت عمررضی اللہ عنہ کا جنہوں نے اپنے دس سالہ عہد خلافت میں روم وایران کی عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جنکی فتوحات کی سی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
انہوں نے بھی اتنے صبر کا مظاہرہ کیا اور بنا شکوہ وشکایت کے جواب تسلیم کرلیا۔اسکے برعکس اگر ہم آج دیکھیں تو حکمران،وزراء اور بڑے بڑے عہدیدار بلاعزر قرض پر قرض لئے جاتے ہیں اور IMF کے مقروض ہوتے جارہے ہیں اور ہر قسم کی آسائشیں اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے میسر کئے جارہے ہیں ،جن کے بچے عام دنوں میں بھی عید جیسے لباس زیب تن کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں قرض عوام کے نام پر لیا جاتا ہے مگر عوام نے قرض کا ایک نوٹ بھی اب تک نہیں دیکھا لیکن پھر بھی عوام ہی مقروض ہے اور Taxesکے ذریعے عوام سے ہی رقم نکالی جاری ہوتی اور قوم مہنگائی کے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی ہے۔
جسمیں ایک عام آدمی بھی بچوں کے لئے عید کی خوشیاں خرید نہیں پارہا تو ملک کے غرباء کا تو ذکر ہی کیا کیا جائے۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور ہمارے حکمران بھی مسلمان ہیں تو کیا یہ تمام حکمران، سربراہ ،سیاستدان اپنے ملک کی عوام کے بارے میں نہیں سوچ سکتے ؟ یا ان کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے ؟ کیا اپنی آسائشوں میں کمی نہیں لاسکتے ؟ ذاتی مفاد کو چھوڑ کر قومی مفاد کے بارے میں نہیں سوچ سکتے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے برابر تو ممکن نہیں انکے لئے مگر اپنے ساتھ ساتھ قوم کے بھی حقوق بجا لائے تاکہ کچھ تو بہتری آئے۔
Eid al-Fitr
رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں کم از کم آشیاء کی قیمتوں میں تو کمی کر سکتے ہیں تا کہ لوگ کم ازکم روزے اور عید تو آرام سے گزار سکے تاکہ بڑے اور خاص طور سے معصوم بچے عید کے دن خوشیوں سے محروم نہ رہیں اور عید گاہ میں خوش لباس پہن کر جائیں جو کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا اور مقدس تہوار ہے،عید کا دن مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کے یہ (یوم الجزائ) کا دن ہے ،مغفرت کا دن ہے اس دن کو اچھے انداز میں منانا بھی ثواب میں شمار کیا گیا ہے ۔ جب دین اسلام میں اس دن کی اتنی اہمیت اور برکت بیان کی گئی ہے تو میری بھی تمام حکمرانوں سے یہ ہی گزارش ہیکہ ( حضور ذرا عید ہی کا خیال کرلیجئے!) تاکہ پاکستانی قوم یہ دن تو سکون سے گزار سکے۔ بہرحال عنقریب عید سعید کی آمد آمد ہے ،میں اس مو قع پر تمام مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتی ہوں اور دعآء گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں تمام مصا ئب دور فرمائے اور انکوخوشیوں بھری اور خیروعافیت والی عید نصیب فرمائے۔ آمین
چراغ دل کے جلائو کہ عید کا دن ہے ترانے جھوم کے گائو کہ عید کا دن ہے