افغانستان امن حل کے لئے ایک اہم کانفرنس افغان طالبان، افغان اپوزیشن جماعتوں اور روس کے درمیان ہوئی ۔افغان طالبان کے سیاسی نائب جناب ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں افغان طالبان کے 14 رکنی وفد نے دوحا سے ماسکو میں 28مئی کو روس اور افغانستان کے درمیان صد سالہ سفارتی تعلقات کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں شرکت کی۔اسی طرح 29مئی کو امارت اسلامیہ کا وفد افغانستان کے چند سیاستدانوں سے سابق صد حامد کرزئی کی قیادت میں بین الافغانی اجلاس میں شرکت کی غرض سے ملک کے مستقبل کے متعلق بحث اور گفتگو ہوئی۔ افغان طالبان کے وفد نے روس کے اعلی حکام سے بھی خصوصی ملاقاتیں کیں۔افغان طالبان کے وفد میں امارت اسلامیہ کے سیاسی نائب ملا عبدالغنی برادر، شیرمحمد عباس ستانکزئی، شیخ الحدیث شہاب الدین دلاور، شیخ الحدیث سید رسول، مولوی عبدالسلام حنفی، ملا محمدفاضل، مولوی امیرخان متقی، ملا عبداللطیف منصور، قاری دین محمد حنیف، محمد سہیل شاہین، ملا خیراللہ خیرخواہ، مولوی محمد نبی عمری، ملا نوراللہ نوری اور مولوی محمد حسن شامل تھے۔تاریخی طور پر افغان روس کے تعلقات تاریخی رہے ہیں ۔ لہذا اسی ضمن میں روس اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقا ت کی سو برس مکمل ہونے پر خصوصی اجلاس کا انعقاد کیا گیاتھا ۔ گو کہ اس سے قبل روس ، افغانستان میں قیام امن کے لئے کئی اجلاس منعقد کرچکا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں جلد ازجلد امن قائم ہو اور امریکا خطے سے اپنی افواج کا مکمل انخلا کرے۔ افغان طالبان اور روسی حکام نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کی سربراہی میں موجود غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں۔ طالبان کے مذاکراتی نمائندے ملا برادر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ملا عبدالغنی برادر نے یہ بیان روس کے دارالحکومت ماسکو میں روسی حکام، افغان حکومت کے نمائندوں اور افغان سیاست دانوں کے اجلاس کے دوران دیا۔ملا برادر نے اپنی تقریر میں کہا کہ طالبان افغانستان میں قیام امن کے عہد پر قائم ہے۔ تاہم اس سلسلے میں پہلا قدم رکاوٹیں دور کرنا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ افغانستان پر غیر ملکی تسلط کا مکمل طور پر خاتمہ ہونا ضروری ہے۔اجلاس کے آغاز پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے مندوبین کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کو ہر صورت نکلنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اس کے لیے صرف سفارتی اور سیاسی حل پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔
افغانستان اور روس کے درمہان باہمی تعلقات اور سفرا کے تبادلے1919میں سرگرم ہوئے ۔ دونوں ممالک کے درمیان سو برس کے تعلقات کو تین حصوں میں کچھ اس طرح منقسم کیا گیا ہے۔ 1919ء سے 1950ء تک قابل احترام، عدم مداخلت اور ایک دوسرے کے داخلی امور میں غیرجانبدار اصول پر استوار روابط رہے۔ افغان عوام کے مطابق یہ مرحلہ دو جانبہ تعلقات کا ایک مثبت دورہ رہا۔جب افغانوں نے 1919ء میں انگریزی استعمار سے اپنی آزادی حاصل کرلی، تو روسی حکام نے ان کا خیرمقدم کیا اور اس آزادی کو مغربی استعمار سے مشرقی اقوام کی آزادی کا آغاز سمجھا۔افغان حکومت اور روس کے درمیان اگست 1926ء میں عدم تجاوز، غیرجانبداری اور متقابل احترام کے معاہدہ پر دستخط، اس مرحلے میں ایک اور بہترین قدم تھا،جس نے افغان جارحیت زدہ عوام کو شمالی ہمسائیہ سے تسلی اور اطمینان دی گئی۔اس کے بعد افغان حکمرانوں محمدنادرشاہ اور محمدظاہر نے بھی اسی معاہدے کی تائید اور تمدید کردی،جو دو جانبہ تعلقات پر مؤثر رہا۔افغانـ روس تعلقات کا دوسرا مرحلہ 1950ء سے شروع ہوا،جب دونوں ممالک نے معاشی تعاون کے نئے باب کا افتتاح کیا۔
انہی سالوں میں افغانستان کی معاشی اسٹریٹجی کی بنیاد رکھی گئی، 140 سے زائد منصوبوں پر کام شروع ہوا،جن میں سے ایک شاہراہوں کا جھال بچھانے اور ملک کے دورافتادہ علاقوں کو دارالحکومت کابل سے منسلک کردیاگیا۔جلال آباد میں مالٹے اور زیتون کے باغات، آبپاشی کا نظام، کابل پولی ٹیکنیک، سیلو، میکرویان اور قصبہ کا تعمیراتی منصوبہ، سالنگ تونل کی کھودائی، متعدد بجلی گھر مثلا نغلو، مزار کود اور بجلی گھر وغیرہ…بعض دانشوروں کے تحقیقات کے مطابق اس وقت کے سوویت یونین، جس کے راس میں روس تھا، نے 1950ء سے1960ء تک افغانستان کیساتھ ایک ارب ڈالر سے زیادہ مالی امداد کیا۔ یہ مرحلہ ہمارے ملک کی ترقی، پیشرفت،انفراسٹرکچر کے تاسیس کی رو سے سب سے اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت کے روسی حکمرانوں نے افغانستان میں اپنے نظریات اور سیاسی اثررسوخ پھیلانے کا عمل شروع کیا، اس کے بعد دونوں ممالک کے دوجانبہ تعلقات کا تیسرا مرحلہ شروع ہورہا ہے،جو سیاسی مداخلت اور بعد میں براہ راست فوجی جارحیت اور اس کے خلاف افغان عوام کا قیام اور جہاد کا دورہ تھا۔ وہ مرحلہ تھا،جس نے افغانستان اور روس دونوں کو نقصان پہنچایا اور سوویت یونین کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ روس اور افغانستان کے تعلقات کا وہ مرحلہ جو عدم مداخلت اور متقابل احترام کے اصول پر استوار رہا، دونوں ممالک میں امن وامان اور خوشگوار فضا رہی۔ مگر آخری مرحلہ جس نے درج بالا اقدار کو نظرانداز کیا،اس سے نہ صرف دونوں ممالک کو بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا ہوا، بلکہ اس سے خطے اور عالمی سطح پر بھاری خسارات رونما ہوئے۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے کابل انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کی وجوہات میں کچھ عناصر کا اقتدار میں رہ کر عالمی طاقتوں سے فنڈ حاصل کرنا اور مخصوص عالمی قوتوں کے مفادات کے لئے افغانستان کو مسلسل بے امن رکھنا ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان جھڑپوں میں افغان طالبان کو فوقیت حاصل رہی ہے ۔ امریکا اور نیٹو افغانستان میں مکمل قابض ہونے میں ناکام رہے ہیں اور ٹریلین ڈالر مالی و جانی نقصان کے بعد امریکا نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا تھا لیکن مکمل انخلا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے افغانستان میں امن معلق ہوگیا ۔نائن الیون کے بعد امریکا کی جانب سے صلیبی جنگ اعلان کے بعد افغانستان پر حملہ کرتے وقت یہی سوچا گیا تھا کہ عراق کی طرح امریکا ، افغانستان میں مکمل عمل داری قائم کرنے میں کامیا ب ہو جائے گا ، لیکن امریکا و نیٹو کی تمام خواہشات پوری نہ ہوسکیں ۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنا مثبت کردار اور بھرپور تعاون فراہم کیا لیکن کابل انتظامیہ کے غیر ذمے دارنہ رویئے کی وجہ سے کامیاب ہوتی کئی کوششوں کو نقصان پہنچا ۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے چھ دور ہوچکے ہیں۔ کئی معاملات پر پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن امریکی مصلحت کی وجہ سے طے شدہ معاملات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ۔ پاکستان نے تمام تر الزام تراشیوں کے باوجود مسلسل اس بات کی یقین دہانی کرائی ہوئی ہے کہ افغانستان کے عوام ہی اپنے وطن میں اقتدار کا مسئلہ حل کریں گے ۔ پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ طویل وقت پناہ دینے والا ملک بن چکا ہے۔ افغان مہاجرین کی تیسری نسل پاکستان میں جوان ہو رہی ہے ۔ انہیں پاکستان میں نقل و حرکت اور کاروبار کی مکمل آزادی بھی دی گئی ہے لیکن کابل انتظامیہ کا غیر معاوندانہ رویہ مہاجرین کی وطن واپسی کی راہ میں رکائوٹ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے ہمراہ قائم مقام افغان وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی بھی پاکستان پہنچے جہاں انہوں نے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور سول حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔افغان حکومت کا یہ وفد ایسے وقت پاکستان کے دورے پر آیا جب روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کے بعض اہم سیاسی رہنماؤں اور عمائدین نے طالبان کے وفد سے ملاقاتیں کررہے تھے۔
افغان طالبان کا سیاسی کردار اس وقت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب چین ، روس ، امریکا ، ایران اور پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں نیٹو کی سربراہی میں قائم اتحاد کے مرکزی عطیات دہندہ ملک جرمنی بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کررہا ہے تاکہ 18 سال سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے مفاہمتی عمل کا دوبارہ آغاز کیا جاسکے۔ برلن کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان مارکوس پوزیل نے افغان حکومت سے بات چیت کے لیے کابل کا دورہ کیا اور دوحہ میں طالبان عہدیداران سے اس ماہ میں 2 مرتبہ ملاقات کی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘پرامن افغانستان کی جانب حالیہ مواقع کو کھونا نہیں چاہیے اگر افغانستان اور جرمنی کے دوست اس کوشش میں مدد کرسکتے ہیں، تو ہمیں کرنا چاہیے’۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمنی، ان متعدد ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پر امن معاہدے میں تعاون کی پیشکش کی، اس کے ساتھ ان میں یورپی یونین اور انڈونیشیا بھی شامل ہے۔ایران نے بھی افغان طالبان سے الگ سے مذاکرات شروع کئے۔ایران کی سپریم قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے کابل میں افغان صدر کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب سے ملاقات میں کے حوالے سے کہاتھا کہ ”ایران کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کا ایک سلسلہ افغان حکومت کے علم سے جاری ہے اور یہ عمل جاری رہے گا”۔
علی شمخانی ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی عہدے داروں کے ساتھ سرکاری دورے پر کابل پہنچے تھے اور ایران کی جانب سے پہلی مرتبہ افغان امن مذاکرات کے بارے میں یہ بیان جاری کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ ایران کی جانب سے افغان طالبان کے بہتر تعلقات اور حمایت میں بیانات پر کابل انتظامیہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتی رہی ہے ۔ کابل انتظامیہ کئی اہم عہدے داران ایران اور طالبان کے مفاہمت پر سخت ردعمل دیتی رہی ہے ۔ افغان ایوان صدر کے ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایرانی عہدیدار طالبان کی زبان کیوں بول رہے ہیں کیا ایرانی عہدیدار طالبان کے ترجمان بن گئے ہیں۔ بعد ازاں ایران کے نائب وزیرخارجہ عباس عراقجی نے افغانستان کا دورہ کیااور صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد طالبان کا ایک وفد ایران پہنچا۔ کابل انتظامیہ کے افغان طالبان کے دورہ ایران کے اعتراضات پر ایرانی حکومت کا کہناتھا کہ طالبان کے وفد کی آمد کا مقصد افغانستان میں امن بات چیت کو آگے بڑھانا ہے۔یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان رولینڈ کوبیا نے بھی قطر میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے وفد سے ملاقات کی تھی۔ملاقات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئی تھی جس میں طالبان کے وفد کی قیادت طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ملاقات میں یونین کی پالیسی کی وضاحت کی اور طالبان قیادت کو یقین دلایا کہ وہ یورپی یونین کے نمائندے کے طور پر افغانستان میں قیامِ امن کے لیے مثبت کردار ادا کریں گے۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق ملاقات میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال، امریکہ کے ساتھ جاری طالبان کے مذاکرات، افغانستان میں جاری لڑائی میں عام شہریوں کی ہلاکتیں روکنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی سمیت دیگر معاملات پر بات چیت ہوئی۔ازبکستان کے وزیرخارجہ عبدالعزیز کاملوف اور افغانستان کے لیے ازبکستان کے خصوصی ایلچی عصمت اللہ نے بھی مارچ 2019میںیک وفد کے ہمراہ ملا عبدالغنی برادر سے ان کے قیام گاہ میں ملاقات کی تھی۔ملاقات میں ازبکستان کے وزیرخارجہ نے ملا برادر اخند سے ملنے میں خوشی کا اظہار کیا اور انہیں اپنے ملک کے صدر کے احترامات پیش کیے۔ازبکستان کے وزیرخارجہ نے کہاکہ ہم افغانستان میں امن وامان کے استحکام کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادہ ہیں، اسی طرح کوشش کررہے ہیں کہ افغان عوام کی بھلائی کی خاطر وہاں معاشی حصے میں کام کریں اور افغانستان کے امور میں کسی قسم کے مداخلت کے ارادہ نہیں رکھتے۔اس کے بعد ملا برادر اخوند نے ان سے ملاقات کے لیے آنے والے ازبک وزیرخارجہ اور وفد کا شکریہ ادا کیا۔ ملا برادر اخوند کہا کہ امارت اسلامیہ مملکت ازبکستان کے ان تمام اقدامات کو سراہتی اور شکریہ ادا کرتی ہے، جو افغان امن اور معاشی ترقی میں کرتی ہے۔
افغان طالبا ن نے جہاں غیر ملکی وفود سے سیاسی ملاقاتیں کیں تو دوسری جانب افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں سے بھی افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے روس کی کوششوں سے ایک اہم مذاکراتی دور بھی کیا۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ اہم دور میں افغانستا ن کے سابق صدر حامد کرزئی، قومی سلامتی کے سابق مشیر حنیف اتمار جو اشرف غنی کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں امیدوار بھی ہیں، محمد محقق، سابق گورنر محمد اسمعیل خان اور عطا محمد نور بھی شریک ہو ئے۔ جو 1979ء میں افغانستا ن میں سویت مداخلت کے بعد اس کے خلاف برسر پیکار رہے وہ بھی اس وفد میں شامل تھے۔کابل انتظامیہ کے ساتھ کسی بھی مرحلے میں مذاکرات میں شمولیت کی اجازت افغان طالبان نے نہیں دی اس لئے کابل انتظامیہ کی عدم شرکت اور افغان طالبان کے کابل حکومت کو کٹھ پتلی حکومت قرار دیئے جانے کے سبب کسی بھی مذاکراتی دور میں کابل انتظامیہ کو شامل نہیں کیا گیا ۔ حالاں کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی جانب سے مخلصانہ کوشش کی گئی کہ افغان طالبان کابل انتظامیہ کو بھی امریکی وفد کے ہمراہ مذاکرات میں شریک کرنے کا موقع دیں ۔ لیکن افغان طالبان کا موقف رہا ہے کہ کابل انتظامیہ امریکا کے زیر انتظام ہے اس لئے کابل حکومت کے پاس فیصلے کا اختیار نہیں ہے۔ جب کابل حکومت کو کسی بڑے فیصلے کا اختیار نہیں تو اس سے مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ماضی میں دیکھا جائے تو پاکستان نے کسی نہ کسی کابل انتظامیہ اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی غیر جانب دارنہ کوشش کی تھی لیکن اُس وقت امریکا کی جانب سے اسے عوامل رونما ہوجاتے جو تمام مذاکراتی کوشش کو ناکام بنا دیتا ۔
ملا عمر مجاہد کی وفات کو ظاہر کرنا اور افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں نشانہ بنانے کے علاوہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی روش اختیار کی گئی ، بلکہ کابل انتظامیہ نے براہ راست پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت شروع کردی ۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر باڑ لگانے والے پاکستانی جوانوں پر افغانستان بارڈر فورس ، اور دہشت گردوں سے حملے کرو کر باڑ لگانے سے روکنے کی کئی بار کوشش کی گئی ۔ ان حملوں میں متعدد پاکستانی فوجی جوان شہید ہوئے۔
ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے منعقد کانفرنس میں افغان طالبان کے سیاسی نمائندوں کی باقاعدہ رسمی شرکت، دوسری بار ماسکو کی بین الافغانی کانفرنس میں افغان طالبان کا فعال حصہ، ازبکستان،ایران اور دیگرپڑوسی ممالک کی جانب سے افغان طالبان کے سیاسی نمائندوں کو رسمی دعوت اورآٹھ ماہ قبل قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان اور امریکی عہدے داروں کے درمیان افغانستان میں قیام امن کے لیے باقاعدہ بات چیت کا آغاز کو سنجیدگی سے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے عالمی برادری کو بھرپور کوششیں جاری رکھنی چاہیں۔امریکا اب براہ راہ راست افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ پہلی مرتبہ گزشتہ سال جولائی میں امریکا کے امور خارجہ کی مشیر ایلس ویلز اور قطر میں افغان طالبان کے دفتر کے ارکان کے درمیان ملاقات سے ہوئی تھی۔جس کے بعد امریکا کی وزارت خارجہ نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے زلمے خلیل زاد کو اپنا خصوصی نمائندہ منتخب کیا۔انہوں نے اب تک کئی ممالک کے دورے کیے اور افغان طالبان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ زلمے خلیل زاد کی طرف سے افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے کئی دورے بھی مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے مشن میں شامل رہے۔ 4 اپریل کو امریکی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کو امریکی فوج کے ایک جنرل نے افغان جنگ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم افغانستان میں امن نہیں لاسکتے۔ ہم طالبان پر عسکری میدان میں فتح بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ طالبان کی تعداد 60 ہزار، جب کہ ہمارے پاس صرف 12 ہزار فوجی ہیں۔ جس کے ذریعے ان کا مقابلہ مشکل ہے۔ ہمیں طالبان کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔
ہم مزید کامیابی نہیں حاصل کر سکتے۔’تجزیہ کار امریکی جنرل کے اس انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘افغانستان میں امریکا ہر لحاظ سے شکست کھا چکا ہے۔ افغانستان سے مکمل طور پر انخلا اور اس جنگ کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔’ یکم مارچ کو نیو یارک ٹائمز نے ایک خبر شائع کی کہ امریکہ پانچ سال میں اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانے پر غور کر رہا ہے، تاہم افغان طالبان نے وضاحت کی کہ پانچ سال کے دوران امریکی انخلاء کے حوالے سے امریکہ نے اس کو آگاہ نہیں کیا ہے۔3 مارچ کو امارت اسلامیہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات احتیاط کے ساتھ کر رہے ہیں، جس میں افغانستان سے امریکی انخلاء اور انسداد دہشت گردی دو اہم موضوعات ایجنڈا میں شامل ہیں، 6 مارچ کو واشگنٹن ٹائمز نے ایک خبر شائع کی کہ طالبان نے امریکہ کی جانب سے تین سال سے پانچ تک کی مدت میں امریکی فوج کے انخلاء کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے، 12 مارچ کو امریکہ اور طالبان کے درمیان 16 روز پر مشتمل طویل مذاکرات کا دور اختتام پذیر ہواتھا جس میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان کئی امور پر معاملات طے پاچکے ہیں لیکن ان معاملات کا اعلان کابل انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پارہا ۔ امریکا چاہتا ہے کہ کابل انتظامیہ نئے سیکورٹی معاہدے کو تسلیم کرلے لیکن کابل انتظامیہ اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے افغانستان میں پائدار و مستحکم قیام امن کی راہ میں حائل نظر آتی ہے۔ لویہ جرگہ کا غیر موثر انعقاد، خواتین کو افغان طالبان کی مخالفت میں آگے کرنا اور علما ئوں و مساجد پر حملے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کے پے در پے واقعات کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے ۔افغان طالبا ن اور امریکا کے درمیا ن فیصلہ کن مذاکرات کا ساتوان دور اگلے مہینے متوقع ہے اور اس بات کی بھی ذرائع نے تصدیق کی ہے افغان طالبان ، افغانستان کے سیاسی نمائندوں ، علما و عمائدین سمیت اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں سے بھی دوحہ قطر میں مذاکرات کا اہم دور میں افغانستان میں انتقال اقتدار کے حوالے سے مشاورتی عمل میں سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں گے۔