خرطوم (جیوڈیسک) سوڈان میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے طبی حکام نے کہا ہے کہ ملک میں حالیہ تشدد کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ فوجی حکومت نے کہا ہے کہ اس حوالے سے جامع تحقیقات کی جائیں گی۔
خبر رساں اداروں نے بتایا ہے کہ سوڈان میں ملکی دارالحکومت خرطوم بدھ کے دن دریائے نیل سے مزید چالیس لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ یوں حالیہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد سو سے بڑھ گئی ہے۔ ادھر فوجی سربراہ نے کہا ہے کہ وہ استحکام کی خاطر مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ملکی فوج دارالحکومت خرطوم میں جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
سلامتی کونسل میں اس تشدد کے خلاف پیش کردہ ایک اعلامیے کو چین نے ویٹو کر دیا ہے۔ اس تناظر میں بیجنگ کو ماسکو کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس افریقی ملک میں جاری اس تشدد کے خلاف عالمی برداری نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سوڈان میں بحالی جمہوریت کے لیے جاری مظاہروں میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد ساٹھ ہو گئی ہے۔ عید کے روز دارالحکومت خرطوم میں فوجی گاڑیاں گشت کرتی رہیں، ہوائی فائرنگ ہوتی رہی اور اکثر سڑکیں سنسان رہیں۔
اطلاعات ہیں کہ فوج کی جنجوید ملیشیا فورس کے اہلکاروں نے مظاہرین کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے۔ سوڈان کی جنجوید ملیشیا پر دارفور کی لڑائی کے دوران بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
قبل ازیں سینٹرل کمیٹی آف سوڈانی ڈاکٹرز نے چالیس ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن پچھلے دو روز سے جاری پرتشدد واقعات کی خبروں کے بعد بدھ کے روز ان کے فیس بک پیج پر اس تعداد کو بڑھا کر ساٹھ کردیا گیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق، خرطوم میں فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد کے ٹولے لوگوں کو دھمکا رہے ہیں۔ لوگوں میں خوف و ہراس ہے اور وہ عید جیسے موقع پر اپنے ہی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
فوجی حکام نے اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ بند کردیا ہے جبکہ خرطوم ایئرپورٹ پر کئی پروازیں منسوخ ہو چکی ہیں۔
تشدد کی تازہ لہر کا آغاز پیر کو اُس وقت ہوا جب ملک کی عبوری ملٹری کونسل نے بحالی جمہوریت کے حامی مظاہرین کے ساتھ جاری مذاکرت ختم کرکے ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔
سوڈان میں کئی ماہ کے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد اس سال اپریل میں فوج نے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا اور ان کے تیس سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
ابتدا میں فوج نے مظاہرین کو اعتماد میں لے کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا تاثر دیا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اقتدار سولین قیادت کو منتقل کیا جائے۔
حالیہ دنوں میں فوج اور جمہوریت حامی حلقوں کے درمیان کشیدگی، تصادم میں بدل چکی ہے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ سوڈان کے جرنیل فوجی اقتدار کو غیرآئینی اور غیر قانونی طول دینے کے لیے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
سوڈان کی اس سول ملٹری پرتشدد لڑائی کو باقی دنیا بظاہر نظرانداز کررہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی سوڈان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ جبکہ برطانیہ اور جرمنی نے سوڈان میں شہریوں کے خلاف فوجی طاقت کے مبینہ بے دریغ استعمال کے خلاف منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مذمتی قرارداد پیش کرانا چاہی لیکن چین اور پھر روس اس کی مخالفت میں سامنے آ گئے۔
خطے کی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو سوڈان کے حاکم عمر البشیر کبھی ایران کے قریب تھے۔ لیکن بعد میں سوڈان سعودی کیمپ میں چلا گیا۔ سوڈان کی موجودہ فوجی قیادت کو اس وقت بھرپور سعودی حمایت حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج سوڈان نہ صرف سعودی فوجی بلاک کا حصہ ہے بلکہ اسکے فوجی سعودی فوجیوں کے شانہ بشانہ یمن کی جنگ میں شریک ہیں۔