قوموں کی تعمیر و ترقی میں جو عناصر کارگر ثابت ہوتے ہیں ان میں سے اہم ترین ذریعہ ان کی اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ وابستگی ہوتی ہے۔ہم آج سے چودہ سوسال قبل اور اس سے پیشتر بھی دیکھیں تو یونانی و رومی ،ہندی و فارسی تہذیبوں نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا تو اس کے سرنہاں ان کی اپنی قومی زبان و قومی تہذیب کے بارے میں حمیت و غیرت کی حدت تک رشتہ استوار کیا جانابنارہاہے۔بعثت اسلام کے بعد مسلمانوں نے دنیا کو مسخر کیا اور چہاردانگ عالم اپنے فیوض و برکات بکھیرے تو اس میں بنیادی عنصر یہی قومی زبان اور اپنی تہذیب و ثقافت سے وابستگی رہا۔باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے رومی وفارسی اور ہندی و یونانی علوم وفنون سے استفادہ بھی کیا اور ان کی تہذیب و ثقافت کو حذف و ترمیم کے ساتھ قبول کرنا ٹھہرا۔لیکن مسلمانوں کا طرہ امتیاز یہ رہاہے انہوں نے جہاں پر دوسری اقوام سے استفادہ کرنے میں باک محسوس نہیں کی وہیں پر انہوں نے اپنی قومی زبان و تہذیب پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
اقوام وملل سے حاصل شدہ علوم و فنون کا برملا اعتراف کیا اور اس میں ترمیم و اضافہ کرکے بہتری کے زینہ پر چڑھاکر دنیا کے انسانوں کی نفع مندی کا سامان کیا۔مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورحکومت کے خاتمے کے اسباب میں عیش وعشرت کی زندگی کو اختیار کرنا اور علاقائی و ذاتی جاہ و منزلت کا دم بھرنا ٹھہرا۔ تاہم مسلمانوں نے شرق و غرب کی اقوام کو علم دوستی کا یکساں موقع فراہم کیا۔سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہو،میڈیکل سائنس،فلکیات و جغرافیہ کا علم،ریاضی و انجئنرنگ ،علم فلسفہ و علمم تاریخ وغیرہ سبھی میں مسلمان ید طولانی رکھتے تھے اور یہ سب علم مسلمانوں ہی سے مغرب نے اندلس کی جامعات میں سے سیکھا ہے۔مغرب نے صلیبی جنگوں سے قبل اور بعد میں مسلمانوں سے کسب فیض کیا اور پھر انہوں نے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ان تمام جدید و سائنسی علوم کے تراجم انگریزی میں اس اعتبار سے کردئیے کہ ان کے ماخذ و مصدر ابن رشد، فارابی و کندی،ابن الہیثم وغیرہ کی عظمت و رفعت علمی کا انکار کردیا۔اس کے بعد یہ سبھی علوم نئے لبادہ میں اوڑھ کر مشرق میں پیش کیے گئے جن کو قبول کرنے میں مسلمانوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔
بنیادی عنصر جس پر مسلمان کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرسکتے وہ اسلامی تہذیب و ثقافت ہے۔تاہم دنیا کی چکاچوند نے مسلم حکمرانوں اور جدیدیت کے علمبرادوں کی آنکھوں پر ایسی مہریں ثبت ہوچکی ہیں کہ ان کو ہر نئی چیز جو مغرب سے منتقل ہو کو قبول کرنے کے لیے رضامند نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہاں نہ تو علم و فن میں وہ ترقی نظر آرہی ہے کیونکہ تقلیدی کام کبھی بھی تخلیق پر غالب نہیں آسکتا۔مغرب نے اپنے علوم سے استفادہ کرنے کو انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب و ثقافت سے مشروط کردیا ہے۔جس کا مقصد یہ ہے کہ کوا ہنس کی چال چل کر اپنی بھی چال بھول بیٹھاکی عملی تصویر مسلمان ممالک بن چکے ہیں۔ساٹھ اسلامی ممالک میں اہم ترین ملک پاکستان ہے جس کی بنیاد دوقومی نظریہ پر رکھی گئی۔بانیان پاکستان اوردساتیر پاکستان اور عدالت عظمی سبھی کا ممتفقہ فیصلہ ہے کہ ملک کی قومی زبان اردو ہے۔اردو زبان کو سرکاری طورپر 15 برسوں کے دوران بتدریج نافذ العمل کیا جائے۔
اردو تمام قومیتوں اور علاقوں کے مابین پل کا کردار اداکرتی ہے کہ رابطہ کی زبان یہی اردو ہی ہے۔مقتدرہ قومی زبان نے جدید علوم و فنون کے تراجم بھی کردئیے۔مگر سو اتفاق کہے یا شومی قسمت کہ ملک میں موجود انگریزکے نمک خوار سرمایہ دار و جاگیردار ذہنیت کے مالک جن کا اور ان کی نسلوں کا گذشتہ ستربرس سے اقتدار کے ایوانوں اور بیوروکریسی پر قبضہ ہے وہ قومی زبان کو اس کا جائز مقام دینے میں باک محسوس کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ملک میں قومی زبان کا نفاذ عمل میں آجائے تو چہارسو تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہوگا تو ان کا اور ان کی نسلوں کا مقام ملک کے عام شہری کے برابر ہوجائے گا تمام تربرتری و امتیازی مقام و ممراتب چھن جانے کا خوف ان کو لاحق ہے۔
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی 95 فیصد آبادی کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے متمنی فوج و حکمران اور اعلی عدلیہ کے ججز کو راست اقدام اٹھانا ہوگا کہ کوئی بھی ملک و قوم ماضی میں اور حال میں بھی چین و جاپان، فرانس و روس،ایران و سعودیہ اور ترکی سبھی ترقی یافتہ و ترقی پذیر ہیں تو اس کی وجہ ان کی جانب سے اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ والہانہ وبستگی و تعلق ہے تو پھر پاکستان کے بہی خواہ اس اہم اور نیک کام کو انجام دینے میں پس و پپیش سے کام کیوں لے رہے ہیں۔تحریک نفاذ اردو پاکستان کی جدوجہد کا مقصد وحید یہی ہے کہ عوام الناس میں مہذب و شائستہ انداز میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا داعیہ پیدا کرنا ہے اور اردو زبان کی ضرورت و اہمیت اور نفاذ اردو کے ثمرات سے معاشرے کو آگاہ و واقف کرنے کے ساتھ ملک میں اردو کو قومی سطح پر دفتری و عدالتی اور تعلیمی زبان بنواناہیاس مقصد کے حصول کے لیے ہرممکن جدوجہد کرناہے۔تو آئیے تحریک نفاذ اردو کا ہاتھ بٹا کر اپنا اور آنے والی نسل کا مسقتبل محفوظ و روشن کرنے کے لیے کردار ادا کر جائیں۔
Atiq ur Rehman
تحریر : عتیق الرحمن ،مرکزی ناظم اطلاعات و نشریات تحریک نفاذ اردو پاکستان۔