پی ٹی ایم کی مذموم سازشیں بے نقاب

PTM

PTM

تحریر : قادر خان یوسف زئی

شمالی وزیر ستان میں پاک فوج کے خلاف گزشتہ ایک مہینے کے دوران دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیر ستان میں آپریشن کے بعد سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی جانب سے پاک فوج پر حملوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ شمالی وزیر ستان میں جب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ریاستی آپریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ملک دشمن عناصر ریاستی اداروں کے خلاف منظم سازشوں میں مسلسل مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کے علاقے بویہ میں پاک فوج کی گاڑی پر فائرنگ اور بم حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک جوان شہید ہو گیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ شمالی وزیرستان کے علاقے بویہ میں پاک فوج کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی اور آئی ای ڈی سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سپاہی عامل شاہ شہید ہو گیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور ایک ماہ کے دوران 10 سپاہی شہید اور 35زخمی ہو چکے ہیں۔

خاڑ کمر چیک پوسٹ پر حملے اور بارودی سرنگ دھماکے کا واقعہ بھی دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی گرفتاری کے باعث پیش آٰیا۔پاک فوج نے چار عشروں سے موجود ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے جانی قربانیاں دیں ہیں۔ شمالی وزیر ستان کی عوام نے بھی امن کے قیام کے لئے پاک فوج کے ساتھ جانی و مالی قربانیاں دیتے ہوئے آئی ڈی پیز بھی بنے ۔ یہ بات طے ہے کہ شمالی وزیر ستان کی عوام علاقے میں امن چاہتے ہیں ، لیکن ملک دشمن عناصر کے سہولت کار افغانستان اور بھارت کی فنڈنگ سے سادہ لوح عوام کو جذباتی طور پر مشتعل کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سہولت کاروں میں سب سے زیادہ منفی کردار پشتون تحفظ موومنٹ نامی نام نہاد قوم پرست تنظیم کا نظر آیا ہے جو اس سے قبل محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے شمالی وزیر ستان کی عوام کو مشتعل کرنے کی کئی ناکام کوشش کرچکا تھا۔

پی ٹی ایم نے پاکستان میں سیاسی افراتفری کا بھی فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کے تحت ایک ایسی تحریک شروع کی ہوئی ہے جس میں ریاستی اداروں سے عوام کا اعتماد ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔خاڑ کمر چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم کی جانب سے دہشت گردوں کے سہولت کار کو چھڑانے کے لئے دھرنا اور پھر سیکورٹی فورسز کی چوکی پر منصوبے کے تحت مسلح حملہ کیا گیا ۔ واقعے کی رپورٹ میں چشم کشا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے خڑکمر واقعہ کی چشم کشا رپو ر ٹ میں محسن داوڑ اور علی وزیر کو چیک پوسٹ پر حملہ کا ذمہ دار قرار دیدیا گیا ہے۔ محسن داوڑ اور علی وزیر شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ انہیں شمالی وزیر ستان کی عوام نے اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے منتخب کیا تھا، لیکن ان کی زیادہ توجہ ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی و دشنام طرازی پر مرکوز ہے ، شمالی وزیر ستان کئی دہائیوں سے بے امنی کا شکار رہا ہے ۔ ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائیوں میں ملکی و غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک پر کاری ضرب لگائی ۔ جس سے کالعدم تنظیموں نے افغانستان میں پناہ لے لی اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہونے لگے۔

”خاڑ کمر چیک پوسٹ واقعے کی رپورٹ کے مطابق علی وزیر نے مظاہرین کو چیک پوسٹ پرحملے کے لیے کیا اکسایا،دو ارکان اسمبلی محسن اور علی وزیر نے خاڑکمر چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والوں کی قیادت کی، ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان نے رپورٹ خیبرپختونخوا حکومت کو ارسال کردہ رپورٹ میں محسن داوڈ اور علی وزیر پر واقعے کا الزام لگایا گیا ہے،رپورٹ کے مطابق ٹوچی، دتہ خیل، الواڑہ، آدمی کوٹ، خرکمڑ، بویہ کے علاقوں میں امن وامان کی صورتحال ابتر ہوئی، ان علاقوں میں سیکورٹی فورسز پر مختلف ہتھیاروں سے حملے کئے گئے ہیں،رپورٹ کے مطابق29اپریل کو دتہ خیل میں آرمی قافلے پر حملہ کرکے تین سپاہیوں کو شہید کیا گیا، یکم مئی کو الواڑہ میں باڑ لگانے والی ٹیموں پر حملے میں 4 سپاہی شہید ہوئے، 24مئی کو سیکورٹی فورسز نے آپریشن کیا اس دوران 2 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیاجس کے خلاف ڈوگہ مچہ کے رہائشیوں نے خاڑ کمر چیک پوسٹ تک ریلی نکالی، مظاہرین نے رکاوٹوں کو نقصان پہنچایا اور ریاست مخالف نعرے لگائے، فوج نے احتجاج کے دوران تحمل کا مظاہرہ کیا، 25 مئی کو علاقہ بویہ میں 12 عمائدین کیساتھ مذاکرات کیے گئے، مذاکرات میں حکام دھرنا ختم کرنے کی شرط پر ایک مشتبہ شخص کو رہا کرنے پر آمادہ ہوگئے، ایم این اے علی وزیر اور محسن داوڑ کے اکسانے پر مظاہرین دوبارہ چیک پوسٹ پر جمع ہوئے، 26 مئی کو ایم این ایز 300 حمایتوں کو لے کر چیک پوسٹ پہنچے،سیکورٹی فورسز نے احتجاجی کیمپ میں شامل ہونے کے لیے پارلیمنٹرنیز کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کا کہا، ایم این اے علی وزیر نے سیکورٹی فورسز کے خلاف نازیباں زبان استعمال کی، علی وزیر نے مظاہرین کو چیک پوسٹ پرحملے کے لیے کیا بھڑکایا، محسن اور علی وزیر دو رکن اسمبلی نے خڑکمر چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والوں کی رہبری کی، مظاہرین نے چیک پوسٹ پر پتھراو کیا اور ایم این ایز کے ساتھ مسلح افراد نے چیک پوسٹ پر گولیاں چلائیں، چیک پوسٹ پر مختلف اطراف سے گولیاں چلیں، سیکورٹی فورسز نے مختصر دورانیہ کے لیے جوابی فائرنگ کی،مظاہرین نے سیکورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی، شرپسندوں کی گولیاں مظاہرین اور پارلیمنٹرینز کی گاڑیوں کو لگیں”۔

ریاست کی جانب سے بارہا اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ چونکہ وزیر ستان کے علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عوام نے پاک فوج کا ساتھ دیاہے اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے وزیر ستان میں امن قائم ہوا ہے۔ سابق فاٹا یا علاقہ غیر کہلانے والے علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار یہ علاقیسیاسی دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔ حکومت نے قبائلی علاقوں میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کی بجائے شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو ہی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔قبائلی علاقوں میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی 16 نشستوں کے لیے انتخابات 2 جولائی کو ہونے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول پر عمل جاری ہے، واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں سابق فاٹا کی نشستیں بڑھانے کے لئے بل منظور کیا گیا تھا لیکن دوسری جانب سینیٹ سے بل کی منظوری نہ ہونے پر اپوزیشن جماعتیں تذبذب کا شکار ہوگئی ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے وضاحت بھی مانگ لی ہیں لیکن حکومتی ذرائع کے مطابق شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کے انٹرویو بھی شروع کردیے ہیں۔26 ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبرپختونخوا اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی نشستیں 16 سے بڑھا کر 24 اور قومی اسبملی میں 6 سے بڑھا کر 12 کی جارہی ہیں۔ 26 ویں ترمیم کے لئیسینٹ کا اجلاس بلاکر منظوری لے جانے باقی ہے۔ اس بات کا بھی خدشہ طاہر کیا گیا تھا کہ اگر سینیٹ میں 26 ترمیم کا بل منظور ہوجاتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن کے لئے نئی حلقہ بندیوں کے تحت مقررہ مدت میں انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا۔ جس وقت سابق فاٹا کا انضمام کیا جارہا تھا اور حلقہ بندیاں کرکے صوبائی انتخابات کی تیاریاں کی جا رہی تھی ضروری تھا کہ اسی وقت حتمی نشستوں کا فیصلہ کرلیا جاتا لیکن 26 ویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات موخر کردیئے تو اس سے ان علاقوں کو عوامی نمائندگی کا حق ملنے میں مزید تاخیر ہوگی اور اس سے ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اے این پی کے سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے یا تاخیر ہوگی حکومت واضح کرے، قبائلی عوام سمیت تمام سیاسی جماعتیں کنفیوژن کا شکار ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کو بھی اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ قبائلی اضلاع کو ان کا حق ملے۔ضم شدہ قبائلی علاقوں میں انتخابات کے لیے امیدواروں کے چناؤ کے لیے حکمران جماعت پی ٹی آئی نے انٹرویو بھی شروع کردیے ہیں اس حوالے سے حکومتی ترجمان شوکت یوسفزئی نے اس بات کی تصدیق کی کہ قبائلی علاقوں میں انتخابات شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو ہونے جارہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی قبائلی علاقہ جات کی ایجنسیاں ووفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں کل 7 ایجنسیوںاضلاع خیبر ایجنسی،کرم ایجنسی،باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی،شمالی وزیرستان اورجنوبی وزیرستان پر مشتمل ہیں۔ان کے علاوہ پشاور، ٹانک، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ 6 سرحدی علاقے بھی موجود ہیں۔سرحدی علاقہ بنوں،سرحدی علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان،سرحدی علاقہ کوہاٹ،سرحدی علاقہ لکی مروت،سرحدی علاقہ پشاور،سرحدی علاقہ ٹانک بھی شامل ہیں۔قبائلی علاقہ جات یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات، پاکستان کے قبائلی علاقہ جات چاروں صوبوں سے علاحدہ حیثیت رکھتے تھے اور یہ وفاق کے زیر انتظام تھے، مئی 2018ء میں ہونے والی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کر کے ان کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔قبائلی علاقہ جات 27 ہزار 220 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے تھے۔مغرب میں قبائلی علاقہ جات کی سرحد افغانستان سے ملتی ہیں۔ قبائلی علاقہ جات کے مشرق میں پنجاب اور صوبہ سرحد اور جنوب میں صوبہ بلوچستان ہے

ایک جانب ریاست قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں کی عوام کے لئے بنیادی حقوق کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب ریاست کی جانب سے مثبت کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے افغانستان اور بھارت کی جانب سے ایک ایسی نام نہاد قوم پرست تنظیم کی سرپرستی کی جارہی ہے جو نوجوانوں کو ریاست کے خلاف ورغلانے میں کسی بھی قسم کے منفی پروپیگنڈوں سے گریز نہیں کرتی ۔ یہاں تک کہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے خواتین اور بزرگ خواتین کا استعمال بھی کردیا ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکی خبر رساں ادارہ وائس آف امریکا مکمل طور پر پی ٹی ایم کا ترجمان بنا ہوا ہے اور پاکستانی ریاست اور اداروں کے خلاف منفی و جھوٹی رپورٹوں کو پھیلانے میں مصروف ہے۔اطلاعات کے مطابق صرف غیر ملکی پاکستان مخالف میڈیا ہی نہیں بلکہ این ڈی ایس اور ‘ را ‘ کے تعاون سے سوشل میڈیا پر ریاست مخالف پوسٹوں کو بڑے منظم انداز میں چلایا جاتا ہے ۔ ذرایع کے مطابق سوشل میڈیا پر PTM کے حق میں 1 ہی دن میں 10 ہزار سے زائد پیجز ایسے بنے جن پیجز کے فالوور کم سے کم 2 لاکھ سے زائد تھے۔ 2 لاکھ فی پیج کا بھی حساب لگائیں تو بات 2 ارب تک پہنچی ہے۔یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں پیج بنے اور پہلے ہی دن ان پیجز کو 1 لاکھ سے زائد لائکس کیسے مل گئے ؟۔سرچ کرنے پر پتہ چلا کہ یہ تمام پیج پہلے ہی ایکٹو تھے جس میں فنی ویڈیو یا معلوماتی ویڈیوز آیا کرتی تھی اور ان میں سے 80% پیجز غیر ملکی تھے جس میں سب سے اوپر انڈیا افغانستان اور اسرائیل شامل ہیں۔باقی بچے کھچے پیجز پاکستان میں ہی بنے تھے جس میں پولیٹکس کے متعلق مواد شئیر ہوا کرتا تھا ۔یہاں سے پاکستان مخالف طاقتوں کا طریقہ واردات عیاں ہوتا ہے کہ کیسے ہر محاز پر پاکستان میں فساد کو پرموٹ کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کی جاتی ہے۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر وہ پیجز جن کے لائکس لاکھوں میں ہوں انہیں ضرورت پڑنے پر خرید لیا جاتا ہے یا پھر کرائے پر کچھ دن یا مہینے کے لیے ہائیر کرلیا جاتا ہے پھر ان پیجز کے نام بدل کر انہیں ریفریش کردیا جاتا ہے ایسا کرنے سے سابقہ پوسٹ ہوا مواد ڈیلیٹ ہوجاتا ہے یا پھر اسے پرائویسی لگا دی جاتی ہے۔پھر ان پیجز کی مدد سے ریاست مخالف مواد شئیر کرکے سوشل میڈیا پر موجود نواجوان نسل کو گمراہ کیا جاتا ہے اور عوام کو ریاست کے سامنے لا کھڑا کردیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار میں قومیت صوبائت لسانیت پھیلا کر نوجوان نسل کو اسی کی ریاست کے خلاف بھڑکا کر ریاستی اداروں کے ساتھ لڑوا نے کی سازش زور و شور سے کی جارہی ہے۔

خاڑکمر چیک پوسٹ کا واقعہ جب رونما ہوا تو فوراََ افغان نیوز ایجنسی نے جھوٹی تصاویر کے ساتھ اشتعال انگیز خبر جاری کردی ۔ جب جھوٹی خبر و تصاویر وائرل ہوئی تو نیوز ایجنسی نے پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت اپنی خبر کی تردید کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔ لیکن ریاست مخالف عناصر نے وائرل ہونے خبر کے اسکرین شاٹ کے ساتھ تواتر سے ریاست مخالف پوسٹوں کو جاری رکھا ۔ اور افغان نیوز ایجنسی کی تردید و معافی آنے کے بعد بھی ریاست کے خلاف دشنام طرازی کی تمام حدود پھلانگ لیں۔اور ٹویٹر پر ریاست مخالف ٹرینڈ تاپ پر رہا ۔ خاڑ کمر چیک پوسٹ واقعے کے بعد بویہ میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تو اُس وقت ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی ، جس میں افغان حکومت کے اداروں میں پی ٹی ایم کی حمایت پر مبنی اور پاکستان مخالف پوسٹر آویزاں کئے جا رہے تھے۔

خاڑ کمر چیک پوسٹ حملے سے متعلق ایک چونکا دینے والی خبر بھی وائرل ہوئی جس کے مطابق پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملے سے قبل افغان موبائل فون سروس اور سیٹلائٹ فون کالز پکڑی گئیں، درجنوں کالز انٹرسیپٹ کی گئیں جس سے حملے سے قبل ہی حملے کا علم ہو گیا تھا، ایک موقر قومی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انٹرسیپٹ کی گئی فون کالز کے کوڈیڈ میسجز کو قابل سمجھ انفارمیشن بنانے سے پتہ چلا کہ سابق فاٹا کے علاقہ میں کوئی بڑی شرانگیزی کی جانے والی ہے۔ اخبارکے مطابق سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ خاڑکمر چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم کے مخصوص گروپ کے حملے سے قبل ہی ملک کے ٹاپ انٹیلی جنس اداروں نے افغانستان سے سابق فاٹا میں موصول ہونے والی ایسی درجنوں موبائل سروس اور سیٹلائٹ فون کالز کوانٹر سیپٹ کیا تھا جن میں ”گرے ٹریفک” کی شناخت ہوئی جسے ڈیڈ کمیونیکیشن کہا جاتا ہے۔ جب اس کو ڈی کوڈ کیا گیا تو اس منصوبہ بندی کا پتہ چلا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ماہ میں گرے ٹریفک میں تیزی آئی تھی جبکہ انٹیلی جنس اداروں نے اپنے بہت سارے ٹیکنیکل وسائل سابق فاٹا علاقوں میں لگا رکھے تھے،کمیونیکیشن انٹرسیپٹس سے اشارے ملے تھے کہ پی ٹی ایم کا مخصوص گروپ جس میں علی وزیر اور محسن داوڑ سرفہرست ہیں، کسی بھی وقت کسی بڑی شر انگیزی کا حصہ بنیں گے اور خاڑکمر چیک پوسٹ حملے میں ایسا ہی ہوا۔ الوارہ میں واقع چیک پوسٹ پر دہشت گرد حملے سے لے کر پی ٹی ایم کے مخصوص گروپ کے خاڑ کمر چیک پوسٹ پر حملے تک کی تمام کارروائیاں ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں یہ سب بھارت کابل میں قائم اپنے سفارتخانے سے چلا رہا ہے۔

ضرورت اس امر ہے کہ قبائلی اضلاع کی عوام کو قوم پرستی کی آڑ میں کسی غیر ملکی ملک مخالف ایجنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے ان نام نہاد قوم پرستوں کے حقیقی کردار کو دیکھنا چاہیے کہ جب خطے میںملکی و غیر ملکی دہشت گرد وں نے مکمل قبضہ کر رکھا تھا ۔ اور پاکستان بھر میں معصوم نہتے مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے تھے تو ان کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ اس وقت ریاستی ادارے اور پاکستانی عوام ہی نشانہ بنتے تھے۔ مساجد ، بازار و مذہبی مقامات کو اسلام کے نام پر نشانہ بنا کر پوری قوم کی شناخت پر شدت پسندی کی چھاپ لگا دی گئی تھی ۔ اس وقت بیشتر سیاسی جماعتیں ریاست کے خلاف مسلح حملے کرنے والوں کی مذمت کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنا ووٹ بنک بڑھانے چاہتی ہیں لیکن انہیں اپنے رہنمائوں کی شہادتوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جو ان علاقوں میں بیٹھے دہشت گردوں کی وجہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ خاص طور پختون قوم پرست جماعتوں کو تحمل و بردباری کے ساتھ ایسے عناصر کی مزید سیاسی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے۔ قبائلی علاقوں کے حقوق کے لئے پارلیمان میں بیٹھے ہوئے خیبر پختونخوا سے منتخب ہونے والے اراکین کسی دوسرے ملک یا قومیت سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ انہیں پختون عوام نے ہی اپنا نمائندہ بنا کر پارلیمان میں بھیجا ہے ، ان پختون اراکین کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ پی ٹی ایم جیسی ملک دشمن ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ناپختہ اذہان کو ان کے مذموم مقاصد سے آگاہ کریں۔

انہیں اس حقیقت کا ادارک کرائیں کہ اگر ریاست ان کے علاقوں سے دہشت گردوں کا قلع قمع نہیں کرتی تو پورے پاکستان میں امن قائم نہ ہوتا ، سینکڑوں برس کی شناخت پر شدت پسندی کی مہر نہ لگتی ، آج پی ٹی ایم و ان کے حواریوں کی وجہ سے قبائلی عوام کو آنے والے بدترین وقت سے خود کو بچانا ہوگا ۔قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کا صفایا پی ٹی ایم سہولت کاروں کے خاتمے ممکن ہے۔ قومیت کے نام پر تقسیم کرانے کی سازش سے ملک دشمن عناصر کو فایدہ پہنچے گا ۔ برسوں برس سے ترقیاتی و بنیادی ضروریات سے محروم علاقوں کو ترقی کے راستے میں لانے کے لئے قبائلی عوام کو اپنے درمیان ناپسندیدہ عناصر کو باہر نکالنا ہوگا ۔ قوم پرستی کے خوشنما نعروں اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے قبائلی عوام کو مزید نقصان پہنچے گا ۔ عوام کے جائز حقوق کے لئے مطالبے کی کوئی مخالفت نہیں کرتا ، قبائلی عوام پاکستان کی دفاعی لائن کے فرنٹ پر محب الوطن عوا م ہیں ۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان مخالف عناصر کی سپورٹ اسرائیل ، بھارت اور امریکی کٹھ پتلی کابل حکومت کیوں کررہی ہے۔ ان کے مقاصد صرف پاکستان کو مسلسل عدم استحکام میں رکھ کر اپنے عالمی مفادات کو حاصل کرنا ہے ۔ پختون قوم کو منقسم کرکے نئی جنگ وخانہ جنگی میں جھونکنا ہے۔ ہمیں پی ٹی ایم جیسی قابل مذمت تنظیم سے ہوشیار وخبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی ایم کی قیادت اس وقت ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے ۔ پی ٹی ایم قیادت کے ملک دشمن عناصر سے رابطے اور فندنگ بھی منظر عام پر ہیں ، اگر پی ٹی ایم کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی