سوڈان : حکمراں فوجی کونسل کے خلاف ’سول نافرمانی‘ کے پہلے روز چار افراد ہلاک

Protest

Protest

خرطوم (جیوڈیسک) سوڈان میں حکمراں فوجی جنتا کے خلاف احتجاجی تحریک کے لیڈروں کی اپیل پر اتوار کو عام ہڑتال کی گئی ہے اور تشدد کے مختلف واقعات میں چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ دارالحکومت خرطوم اور دوسرے شہروں میں دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے ہیں اور سڑکیں بھی سنسان نظر آرہی تھیں۔

سوڈانی ڈاکٹروں کی مرکزی کمیٹی کے مطابق خرطوم میں فائرنگ سے دو افراد مارے گئے ہیں۔دو افراد خرطوم کے جڑواں شہر اُم درمان میں مارے گئے تھے۔ان پر چاقو سے وار کیے گئے تھے۔انھیں شدید زخمی حالت میں شہر کے ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ہیں۔

سوڈانی پیشہ وران تنظیم ( ایس پی اے) نے ہفتے کے روز گذشتہ سوموار کو وزارت دفاع کے باہر احتجاجی تحریک کے دھرنے کے شرکاء کے خلاف خونیں کریک ڈاؤن کے ردعمل میں ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا اور عوام سے اس میں بھرپور شرکت کی اپیل کی تھی۔اس نے کہا تھا کہ ’’یہ تحریک یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ایک شہری حکومت خود سرکاری ٹیلی ویژن سے یہ اعلان نشر نہیں کردیتی کہ اس نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔‘‘

اس تنظیم نے خرطوم کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں جن میں ہوائی اڈا خالی نظر آرہا ہے۔اس نے کہا ہے کہ ہوائی اڈے کے ملازمین اور ہواباز بھی سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لے رہے ہیں۔

سوڈانی پیشہ وران تنظیم نے سول نافرمانی کی مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک حکمران عبوری فوجی کونسل اقتدار ایک شہری حکومت کے حوالے نہیں کردیتی،اس وقت تک سول نافرمانی کی یہ مہم جاری رہے گی۔واضح رہے کہ سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن نے سابق مطلق العنان صدر عمر حسن البشیر کے خلاف گذشتہ سال دسمبر میں احتجاجی تحریک شروع کی تھی اور اس کے نتیجے میں انھیں اپریل میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور فوجی کونسل نے انھیں چلتا کرکے اقتدار خود سنبھال لیا تھا۔

سوڈانی فورسز نے گذشتہ سوموار کو دارالحکومت خرطوم میں وزارت دفاع کی عمارت کے باہر احتجاجی دھرنے کے شرکاء پر دھاوا بول دیا تھا اور ان پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں حزب اختلاف کے بہ قول 113 افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوگئے تھے۔اس تشدد آمیز کارروائی کے بعد سوڈانی حزب اختلاف نے حکمراں فوجی کونسل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کردیا تھا۔

فوجی کونسل نے احتجاجی مظاہرین کے دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی اس تشدد آمیز کارروائی کی تحقیقات شروع کردی ہے اور کہا ہے کہ جو کوئی بھی اس کارروائی میں قصور وار پایا گیا ،اس کا مواخذہ کیا جائے گا۔اپریل میں سابق سوڈانی صدر عمر حسن البشیر کی معزولی کے بعد شہر میں تشدد کا یہ بدترین واقعہ تھا۔حزب اختلاف سے وابستہ ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے فائرنگ سے کم سے کم 120 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی تھی۔

حزب اختلاف کے مرکزی گروپ نے حکمراں عبوری فوجی کونسل پر اس قتل عام کا الزام عاید کیا تھا جس کے حکم پر سکیورٹی فورسز نے احتجاجی کیمپ پر دھاو ا بولا تھا۔ تاہم کونسل کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل شمس الدین کباشی نے اس الزام کی تردید کی تھی۔عبوری فوجی کونسل نے بعد میں ایک بیان میں کہا تھا کہ’’ جس طرح واقعات پیش آئے ہیں، اس کو اس پر افسوس ہے۔ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے اور جلد سے جلد مذاکرات کا مطالبہ کرتی ہے‘‘۔سوڈان کے پبلک پراسیکیوٹر نے بھی تشدد کے واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔