خواتین کی لمبی اور گھنی پلکوں کو پُرکشش اور خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے خواتین میں مصنوعی پلکوں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب یہی پُرکشش اور لمبی پلکیں انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
کاسمیٹکس کی صنعت میں مصنوعی پلکوں کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ تیاری کے ایک طویل مرحلے سے گزر کر انسانی آنکھ کی زینت بنتی ہیں۔ مصنوعی پلکیں دو طریقوں سے لگائی جاتی ہیں۔ پہلا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ بازار سے ملنے والی نقلی پلکوں کو آنکھوں پر چپکا لیا جاتا ہے لیکن دوسرے طریقے میں ایک ایک بال کو ایک مخصوص گوند کے ذریعے قدرتی پلکوں کے درمیان چپکایا جاتا ہے۔
اس طریقے میں صرف ایک بالائی پلک کی تیاری میں ہی ایک سو پچاس سے دو سو پچاس کے درمیان بال استعمال کیے جاتے ہیں۔ صرف بالائی پلک کی تیاری میں ہی تین گھنٹے صرف ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کم از کم چوبیس گھنٹوں کے لیے پلکوں کا پانی سے رابطہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس دوران نہ ہی نہانے اور نہ ہی منہ دھونے کی اجازت ہوتی ہے۔
لازمی نہیں کہ مصنوعی پلکیں لگانے کا نتیجہ خوبصورت ہی ہو۔ آنکھوں میں سوزش بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ پروفیسر کرسٹیانے بائرل ڈرمیٹولوجی اور الرجی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سے آنکھوں میں جلن اور شدید خارش کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں کئی طرح کی دیگر الرجیز بھی جنم لے سکتی ہیں، جنہیں برداشت کرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں آنکھوں کے گرد جِلد کی سوزش ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے، ’’آنکھ کے نچلے اور اوپر والے حصے میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہ عارضی ہوتی ہے اور جلد ہی دوبارہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘‘
خوبصورتی نہیں تحفظ
پلکوں کا مقصد خوبصورتی میں اضافہ نہیں بلکہ یہ ہماری آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہیں۔ یہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات اور دیگر چیزوں کو آنکھ کے اندر جانے سے روکتی ہیں۔ یہ پسینے، ہوا اور شدید موسم سے بھی آنکھوں کو بچاتی ہیں۔ ماہرین پلکوں کو آنکھوں کی حفاظتی دیوار کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ تو پہلی نظر میں ان کا مقصد خوبصورتی میں اضافہ نہیں بلکہ آنکھوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ہر چھ سے چار ماہ کے دوران پلکیں نئی نکلتی ہیں۔ ایک پلک کی زندگی ایک سو سے ایک سو پچاس دن تک ہوتی ہے۔
جانوروں سے حاصل کی گئی پلکیں
آنکھوں کو پُرکشش بنانے کے لیے ریشم، مصنوعی ریشے یا پھر جانوروں کے بالوں سے تیاری کی گئی مصنوعی پلکیں استعمال کی جاتی ہیں۔ جانوروں میں سب سے زیادہ آبی نیولے کے بالوں سے پلکیں تیار کی جاتی ہیں۔ مارکیٹ میں یہ ٫سلک لیشیز یا مِنک لیشیز‘ کے نام سے دستیاب ہیں۔
لیکن اس کے خلاف جانوروں کے تحفظ کی تنظیمیں اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان تنظیموں کے مطابق کاسمیٹکس انڈسٹری میں جانوروں کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسی تنظیمیں آبی نیولے کے بالوں سے بھی پلکوں کی تیاری کے سخت خلاف ہیں۔ ان تنظیمیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نقلی پلکیں مردہ آبی نیولے کی کھال سے اتارے گئے بالوں سے بنائی جاتی ہیں اور ان جانوروں کے کانوں تک سے بال اُکھیڑ لیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب پلکیں تیار کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ پلکوں کے بال آبی نیولے کے سینے سے اتارے جاتے ہیں۔
ایشیا سے درآمد
آبی نیولے کے بالوں سے بنی زیادہ تر مصنوعی پلکیں چین اور جنوبی کوریا سے درآمد کی جاتی ہیں۔ ان ممالک میں جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں زیادہ فعال نہیں ہیں اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کمپنیاں اس بات کی بھی پابند نہیں ہیں کہ وہ یہ بتائیں کہ نقلی پلکیں کس ملک سے درآمد کی گئی ہیں۔ دوسری جانب زیادہ تر خواتین یہ سوال کرنا پسند ہی نہیں کرتیں کہ پلکیں کس جانور کے بالوں سے بنی ہیں یا پھر مصنوعی ریشے سے تیار کی گئی ہیں؟
پلکوں کی ٹرانسپلانٹیشن سر کے بالوں کی ٹرانسپلانٹیشن کی طرح ہی کی جاتی ہیں۔ پہلے علاج کے چند ہفتے بعد قدرتی اور مصنوعی پلکیں گرنا شروع ہو جاتی ہیں اور بعدازاں خالی مساموں میں نئی مصنوعی پلکیں لگا دی جاتی ہیں۔
تاہم ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح مصنوعی پلکیں لگانے والوں میں تین سے دس فیصد ہی ایسے افراد ہوتے ہیں، جنہیں ان کے مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔