پاکستان کی بدقستی یہی رہی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں نے عدلیہ کو اپنی خواہشات کے طابع رکھنے کی کوشش کی۔دوسروں کو غلام بنانا اور اپنی خواہشات کے تابع رکھنا انسانی جبلت ہے اور یہ اسی جبلت کا شاخسانہ ہے کہ عدلیہ سدا سے دبائو کا شکار رہی ہے۔کمال یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ عدل و انصاف کے مقدس نام پر رچا یا جاتا ہے لیکن درونِ خانہ مقصد ذاتی اقتدار کو دوام بخشنا اور قتدار سے چمٹے رہنا ہوتا ہے ۔یہ سچ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ حقیقی معنوں میں کبھی بھی آزاد نہیں رہی لیکن پھر بھی اس میں چند معتبر نام ستاروں کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں جس سے عدلیہ کی ساکھ اور وقار قائم رہا۔ عدلیہ کو گاہے بگاہے شب خونوں کا سانا کرنا پڑتا رہا جس سے اس کی کارکردگی اور فیصلوں کی روح متاثر ہوئی رہی ۔ جس کا نقطہ ماسکہ ایک منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی پر لٹکا دینا تھا جس سے عدالتی قتل کی اصطلاع متعارف ہوئی ۔ایسا کیوں ہوتا ہے اس سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ایسے جبری ہتھکنڈوں سے حکمرانو ں کو وقتی فائدہ تو ضرور ہو جاتاہے لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد ملک انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے کیونکہ ذاتی خواہشات کی برومندی سے ملک کابحرانی کیفیت میں مبتلا ہو جا نا فطری ردِ عمل ہوتا ہے ۔طالع آزمائوں کے دور میں عدلیہ کو مٹھی میں بند رکھنے کے عمل کی سمجھ آتی ہے لیکن جمہوری ادوار میں بھی اعلی عدلیہ سے ذاتی پسند کے فیصلے حا صل کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔منتخب قیادت تو جوابدہی کے سہارے ہی اقتدار کے سنگھاسن پرجلوہ افروز ہوتی ہے۔
ان کے پاس جمہوری حقوق کی پاسداری اور بنیادی انسانی حقوق کی علمبرداری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔وہ اپنے منشور اور سہانے وعدوں کے سہارے ہی عوام کو قائل کرتی ،انھیں اپنا ہمنوا بناتی اورپھر ان کا مینڈیٹ حاصل کرکے اقتدار کی حقدار ٹھہرتی ہے۔آئین و قانون کی پاسداری اور سب کے ساتھ برابری کا رویہ ہی وہ محور ہوتا ہے جس پر ان کی ساری انتخابی مہم گھومتی ہے ۔ وہ ہر روز قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے اور میزانِ عدل کو قائم رکھنے کا عزم دہراتی ہے لیکن وقت آنے پر یو ٹرن لے لیتی ہے جس سے پوری قوم پر مایوسی چھا جاتی ہے ۔ در اصل ہمارے ہاں بھڑکیں مارنے ،دعوے کرنے، ہیجان انگیزی اور سنسنی خیزی کی فضا تخلیق کرنے کا ایک مخصوص کلچر ہے ۔اس حمام میں ہر کوئی ننگا ہے لہذا کسی ایک جماعت پر آئین سے چھیڑ خانی اور انحراف کا لیبل چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس منیر سے شروع ہونے والی داستان ہر دور میں نئے رنگ میں سامنے آتی ر ہی۔ چہرے بدتے رہے لیکن اس کی روح وہی پرانی تھی جسے جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت پہلی بار استعمال کیا تھا۔ جسٹس منیر کے ایک فیصلے نے پاکستا کی پوری تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا اور طالع آزمائوں کے لئے ایک ایسا دروازہ کھول دیا جس نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔یہ سچ ہے کہ عدلیہ نہتی ہوتی ہے اور اسے ریاست کے مقتدر ادارے ہی تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے معنی یہ کہاں پر ہیں کہ عدلیہ انہی مقتدر اداروں کابغلی بچہ بن جائے اور عدل و انصاف کا خون کر دے ۔ عدلیہ کا کام غیر جانبدار فیصلے کرنا ہے اور مقتدر اداروں کا کام ان پر عمل در آمد کو یقینی بنا ناہے اب اگر مقتدر حلقے اپنے فرائض سے غفلت برتیں گے تو عوام آگے بڑھ کر خود آئین و قانون اور فیصلوں کی حفاظت کیلئے سربکف نکل آئیں گے۔کوئی جج جب مفادات کاا سیر ہو جا تا ہے تو کمزور ہو جاتا ہے اور تب اسے مقتدر حلقوں سے تحفظ کی ضرورت دامن گیر ہو جاتی ہے وگرنہ اگر جج انصاف پسند ہے تو اس کا اپنا تحریر کردہ فیصلہ ہی اس کا تحفظ ہو تا ہے۔جسٹس رستم کیانی،جسٹس دراب پٹیل،جسٹس کارنیلئیس ، جسٹس صمدانی، جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فائز عیسی اس کی واضح مثالیں ہیں۔جنرل محمد ایوب خان کے دور میں جسٹس کیانی کی ہرسو دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور حکومت کے پاس ان کے فیصلوں سے سرتابی کی ہمت نہیں تھی ۔انسان جب خود ہی بک جانے پر کمر بستہ ہو جائے تو کوئی اسے کیسے سنبھال سکتا ہے؟
١٩٧٣ کے آئین کی سیاہی ابھی سوکھی بھی نہیں تھی کہ قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو نے آئین میں پے در پے کئی ترامیم کر کے عدلیہ کے پر کاٹ دئے ۔ان کی اس روش کا جنرل ضیاالحق نے خوب فائدہ اٹھایا اور ان تمام ججز کو جھنیں ذولفقار علی بھٹو نے نظر انداز کیا تھا انھیںاہم عہدے عطا کر کے انہی سے ذولفقار علی بھٹو کے خلاف وہ تاریخی فیصلہ حاصل کیا جسے دنیا عدالتی قتل سے موسوم کرتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے ایک ممکنہ فیصلے سے بچنے کی خاطر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف سپریم کورٹ پر چڑھائی کر دی اور یوں سجاد علی شاہ کو بھاگ کر اپنی جان بچانی پڑی۔فیصلہ تو ٹل گیا لیکن کئی سالوں کے بعد میاں محمد نواز شریف میاں ثاقب نثار کے فیصلے کا شکار ہو کر تا حیات نا اہل قرار پائے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی سی او ججز کا بڑا شور تھا ۔ انھوں نے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کو مارچ ٢٠٠٧ میں فارغ کر دیا کیوںکہ انھیں خدشہ تھا کہ ایک بڑا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہونے والا ہے۔وکلاء برادری اور جمہوری قوتیں جنرل پرویز مشرف کے فیصلے کے خلاف میدان میں نکل آئیں اور یوں پاکستان داخلی انتشار کا شکار ہو گیا۔وکلاء برادری جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔اس کے کئی اہم راہنمائوں کو جیلوں میں اذیتیں دی گئیں لیکن ان کے پائے استقامت میں پھر بھی لرزش نہ آئی۔علی محمد کرد،اعتزاز احسن،اطہر من ا ا للہ ،رشید اے رضوی،سردار لطیف کھوسہ اس وکلاء تحریک کا ہرا ول دستہ قرار پائے جھنوں نے جنرل پرویز مشرف کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔یہ اسی تحریک کا نتیجہ تھا کہ انھیں اگست ٢٠٠٨ میں قصرِ صدارت سے رخصت ہونا پڑا۔
آج ایک دفعہ پھر تاریخ خود کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے۔سپریم کورٹ کے انتہائی دیانت دار،مخلص اور انصاف پسند جج فائز عیسی کوفارغ کرنے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ان کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیا جا چکا ہے جس کی شنوائی ١٤ جون کو ہونے والی ہے۔وکلاء برادری نے اس ریفرنس کو حکومتی بد نیتی پر معمول کر کے اس کے خلاف ١٤ جون کو ہڑتال کی کال دے دی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور سو ل سوسائٹی وکلاء برادری کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ قوم ایک دفعہ پھر بحران کی زد میں آنے والی ہے جس سے اس کی ایکتا کو شید خطرات لا حق ہو سکتے ہیں ۔حکمرانوں کی آنکھوں پر اقتدار کی پٹی بندھی ہوئی ہے لہذا وہ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
عوام حکمرانوں کی کرتوتوں اور ان کی وعدہ شکنیوں کی وجہ سے ان سے متنفر ہو جاتے ہیں جس کا حکمرانوں کو بالکل احساس نہیں ہوتا بلکہ انھیں کاسہ لیسوں اور خوشامدیوں سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہیں اور عوام ان کی راہ میں آنکھیں بچھانے کیلئے بے چین ہیں۔ جسٹس فائز عیسی کا گناہ کیا ہے،ان کا قصور کیا ہے،ان کے سر پر دو دھاری تلوار کیوں لٹکائی گئی ہے اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔کوئی آواز جو مقتدرہ کو چیلنج کرے، آئین و قانون کا ڈھنڈورا پیٹے ،قانو ن کی بالا دستی کا اعلان کرے اور انصاف کو یقینی بنانے کا عہد کرے اسے برداشت کیسے کیا جا سکتا ہے؟حکمرانوں کے اذہان میں ایک بات کا سدا خوف سوار رہتا ہے کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور ان کا قتدار چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے بس یہی ایک خوف ان سے غلط فیصلے صادر کرواتا ہے جس سے قوم ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب سفر شروع کر دیتی ہے۔پاکستان پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے،اس کی معیشت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے ،اور اس کے مالی معاملات انتہائی دگرگوں ہیں ، لہذا یسے ہر اقدام سے گریز کیا جانا چائیے جس سے ملک میں انتشار کو مزیدہوا ملے۔کیا یہ ریفرنس اتنا اہم اور ضرو ری ہے کہ اس کے بدلے انتشار کا خطرہ مو ل لیا جائے؟کیا ہوش کے ناخن لینے پر پابندی ہے؟