کشمیری بچی کا ریپ اور قتل، چھ ملزمان کے جرائم ثابت ہو گئے

Protest

Protest

ممبئی (جیوڈیسک) بھارت کی ایک عدالت نے ایک آٹھ سالہ مسلمان بچی کے ریپ اور قتل کے مقدمے میں چھ ہندو ملزمان کو قصور وار قرار دے دیا ہے۔ ان مجرموں میں ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر اور چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

پٹھان کوٹ کی ایک عدالت کے جج تیجوندر سنگھ نے اپنے فیصلے میں ایک ملزم کو ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ مجرموں کے لیے سزاؤں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ مقتولہ بچی کے اہل خانہ اور بھارت کے زیر اتنظام کشمیر کے سیاسی حلقوں نے اس عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

نیوز ایجنسی اے پی سے بات چیت کرتے ہوئے اس بچی کے والد محمد اختر نے کہا، ”ہمارے خاندان کو ایک عذاب کا سامان رہا ہے۔ ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ان حیوانوں کو پھانسی دی جانا چاہیے۔‘‘

ریپ اور قتل کے اس جرم کا ارتکاب جنوری دو ہزار اٹھارہ میں کیا گیا تھا۔ بھارتی پولیس کی کرائمز برانچ کی چارج شیٹ کے مطابق اس گھناؤنے جرم کی منصوبہ بندی ریٹائرڈ سرکاری افسر سانجھی رام اور دیپک کھجوریہ نے کی تھی، جس کا مقصد بظاہر کٹھوعہ کے ایک گاؤں سے متعلقہ مسلمان خاندانوں کو بے دخل کرنا تھا۔

پولیس کے مطابق اس بچی کو اغوا کر کے ایک مندر کے احاطے میں کئی روز تک ریپ اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی تھی۔

بھارت میں آئے دن خواتین اور لڑکیوں کے ریپ اور قتل کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس جرم کی نوعیت واضح طور پر فرقہ ورانہ بھی تھی، جس سے مقامی مسلمان اور ہندو آبادیوں کے مابین جاری کشیدگی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔

ایسے میں ریاست میں اُس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط علاقائی حکومت کے دو وزراء نے ملزمان کے حق میں مظاہرے بھی کیے تھے۔ بعد میں شدید عوامی تنقید کے نتیجے میں بی جے پی کو ان دونوں وزیروں کو اپنے عہدوں سے الگ بھی ہونا پڑ گیا تھا۔

اس جرم کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد پورے بھارت میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اپنے احتجاجی مظاہروں میں مقتولہ بچی کے ورثاء کے لیے فوری انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

اس مقدمے میں عدالتی کارروائی کی تیز تر تکمیل کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت پر متعلقہ عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی تھی اور ایک سالہ کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 114 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔