اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی حکومت نے مالی سال 20-2019 کے لیے تقریباً 50 فیصد خسارے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں 11 کھرب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جن سے چینی، کوکنگ آئل، سیگریٹ، گیس اور گاڑیوں سمیت متعدد اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔
وفاقی بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیلئے 55 کھرب 55 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف رکھا گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 25 فیصد یعنی 11 کھرب 20 ارب روپے زیادہ ہے۔
اس سلسلے میں گزشتہ برس کی نسبت بلاواسطہ ٹیکس کی مد میں 3 کھرب 46 ارب روپے اور 7 کھرب 73 ارب روپے بلواسطہ ٹیکس کی مد میں بڑھائے گئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 20-2019 کے وفاقی بجٹ میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 4 کھرب 77 ارب روپے کے اضافی سیلز ٹیکس، 3 کھرب 63 ارب روپے کے اضافی انکم ٹیکس، 2 کھرب 65 ارب روپے کی اضافی کسٹمز ڈیوٹیاں اور 99 ارب روپے کی اضافی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹیاں عائد کی جائیں گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے بجٹ اجلاس میں وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کیا جس کا کُل تخمینہ 70 کھرب 22 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں گھی، خوردنی تیل ، چینی ، دودھ ، خشک دودھ ، کریم مہنگی کر دی گئی، سیمی پراسیس اور پکے ہوئے چکن، مٹن، بیف، مچھلی پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ گاڑیاں ، سیمنٹ ، ماربل، ایل این جی، سی این جی اور سگریٹ بھی مہنگے کر دیے گئے۔
پھلوں کے جوس، سیرپس، اسکوائشز، کولڈ ڈرنکس پر ٹیکس بڑھا نے کی تجویز جبکہ سونا ، چاندی اور ہیروں کی درآمد پر بھی ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
بجٹ کے اہم نکات:
گریڈ ایک سے 16 تک کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافے کی تجویز گریڈ 21 اور 22 کے سول ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں بھی 10 دس فیصد اضافے کی تجویز ملک میں کم سے کم تنخواہ 17500 روپے کرنے کی تجویز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ 5 ہزار روپے سے بڑھا کر 5500 کرنے کی تجویز دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رہے گا کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 45.5 ارب روپے تجویز قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 18 کھرب روپے مختص کرنے کی تجویز اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے روپے مختص وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کا تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ چینی، کوکنگ آئل، گھی، مشروبات، سگریٹ اور سی این جی مہنگی وفاقی بجٹ کا خسارہ 35 کھرب 60 ارب روپے رکھا گیا ہے
بجٹ تقریر میں وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر کا کہنا تھا کہ جب حکومت ملی تو پاکستان کا قرضہ اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھیں اور 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ تھا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سال کے دوران اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے گر کر 10 ارب ڈالر تک رہ گئے تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہو چکا ہے، بورڈ کی منظوری کے بعد اس منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا، معیشت کو استحکام حاصل ہو گا اور سالانہ ترقی کی شرح میں اضافہ ہو گا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بعد 3.2 ارب ڈالر کا تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی گئی جب کہ اسلامی ترقیاتی بینک سے فوری ادائیگی کے بعد تیل درآمد کرنے کی سہولت شروع کر دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر اور اگلے سال ساڑھے 6 ارب ڈالر کی کمی آئے گی جب کہ گردشی قرضے 38 ارب روپے سے کم ہو کر 24 ارب روپے رہ گیا ہے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ کفایت شعاری مہم کے تحت سول بجٹ میں کمی جب کہ فوج بجٹ میں کوئی اضافہ نہ کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سول حکومت کا سالانہ بجٹ 460 ارب سے کم کر کے 437 ارب روپے کیا گیا ہے جو کہ 5 فیصد بنتا ہے جب کہ دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر مملکت نے بتایا کہ کم سے کم تنخواہ 17500 روپے مقرر کی گئی ہے جب کہ گریڈ ایک سے 16 تک کے تمام سرکاری ملازمین کو بنیادی تنخواہ پر 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا، پاک فوج کے ملازمین کی تنخواہوں میں 2017 کے ایڈہاک کے تحت 10 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ گریڈ 17 اور 22 کے سول ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ کابینہ کے تمام وزراء نے رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے سالانہ بجٹ میں کوکنگ آئل، گھی، چینی، مشروبات، سگریٹ، سی این جی، ایل این جی، سیمنٹ اور گاڑیوں پر عائد ٹیکسز کی شرح میں اضافہ تجویز کیا ہے۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں گھی ، خوردنی تیل ، چینی ، دودھ ، خشک دودھ ، کریم مہنگی کر دی گئی۔ سیمی پراسیس اور پکے ہوئے چکن، مٹن، بیف، مچھلی پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا۔
گاڑیاں ، سیمنٹ ، ماربل، ایل این جی، سی این جی اور سگریٹ بھی مہنگے کر دیے گئے۔ پھلوں کے جوس، سیرپس، اسکوائشز، کولڈ ڈرنکس پر ٹیکس بڑھا نے کی تجویز ہے جبکہ سونا ، چاندی اور ہیروں کی درآمد پر بھی ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
وزیر مملکت برائے ریوینو نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ کسی نان فائلر (ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے) کے نام پر 50 لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد کو رجسٹر یا ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی کہ جائیداد کی خریداری پر اس پابندی کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام کو عدالت میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے لہٰذا نان فائلر کیلئے غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر عائد یہ پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے۔
وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہر کا کہنا تھا کہ کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 152 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی بجٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے جاری اور ترقیاتی اخراجات کیلئے 152 ارب روپے فراہم کرے گی۔
اس میں 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی شامل ہے جس کیلئے وفاقی حکومت 48 ارب روپے دے گی۔ یہ 10 سالہ پیکج ایک کھرب روپے کا حصہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہیا کریں گی۔
سابقہ قبائلی علاقوں کیلئے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ خام مال اور پلانٹ و مشینری کی امپورٹ پر ٹیکس استثنیٰ کو ان علاقوں تک وسعت دی جائے۔
سابقہ فاٹا اور پاٹا میں تمام گھریلو اور کاروباری صارفین اور 31 مئی 2018 سے پہلے قائم ہونے والی صنعتوں کو بجلی کی فراہمی پر سیلز ٹیکس پر استثنیٰ دینے کی تجویز ہے، اس استثنیٰ کا اطلاق ان علاقوں میں واقع اسٹیل ملوں اور گھی ملز پر نہیں ہوگا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹریڈ بیس منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے نیا نظام تجویز کیا جا رہا ہے، مرکزی بینک کو افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی بنانے کے لیے وسیع تر خودمختاری دی جار رہی ہے۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت 100 ارب تک کے سستے قرض دیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے مراعات دے رہے ہیں جب کہ بجلی اور گیس کے لیے 40 ارب روپے کی سبسبڈی، برآمدی شعبے کے لیے 40 ارب روپے کا پیکج، لانگ ٹرم ٹریڈ فنانسگ کی سہولت برقرار رکھی جائے گی۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ روزگار پیدا کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم کے 50 لاکھ گھروں کے پروگرام سے 28 صنعتوں کو فائدہ ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ سستے گھروں کی تعمیر کے پروگرام کے لیے لاہور، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد میں زمین لے لی گئی ہے جس کے لیے سرمایہ کاری کے انتظامات کر رہے ہیں، یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلے گا، اس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔
حماد اظہر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پنڈی اور اسلام آباد کے 25 اور بلوچستان میں ایک لاکھ 10 ہزار ہائوسنگ یونٹ کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زرعی ٹیوب ویل پر 6.85 روپے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ پر بجلی فراہم کی جائے گی۔
حماد اظہر نے کہا کہ ایل این جی سے چلنے والے دو گھروں اور چند چھوٹے اداروں کی نجکاری کی جائے گی جس سے 2 ارب ڈالر جمع ہوں گے۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ ٹیکس وصولیوں کا کل حجم 58 کھرب 22 ارب 20 کروڑ روپے رکھا گیا ہے جب کہ ایف بی آر کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ متفرق ٹیکسز کا ہدف 26 کھرب 7 ارب 20 کروڑ روپے اور نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 89 ارب 4 کروڑ 50 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
ان کا بتانا تھا کہ بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی وصولیوں کا ہدف 18 کھرب 28 ارب 80 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
حماد اظہر نے بتایا کہ رواں برس قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1800 ارب تجویز کئے گئے ہیں جس میں سے 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی زمین حاصل کرنے کے لیے 30 ارب روپے اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب تجویز کیے جا رہے ہیں۔ داسو ڈیم کے لیے 55 ارب رکھے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑک اور ریل کے کچھ منصوبے سی پیک کا حصہ ہیں، اس غرض سے 200 ارب تجویز کیے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب نیشنل ہائی وے سے خرچ ہوں گے۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ ترقیاتی بجٹ میں صحت، غذائیت اور پینے کے صاف پانی کے حصول کے پروگرام کے لیے 93 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں جب کہ انسانی ترقی کے لیے 60 ارب اور اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے کا ریکارڈ فنڈ رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے حوالے سے 80 ارب روپے تجویز کر رہے ہیں، وفاقی ترقیاتی پروگرام میں زراعت کے لیے 12 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے 10.4 ارب روپے سے کوئٹہ پیکج کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر رہے ہیں۔