گرفتاری، تحریک اور بجٹ

Budget

Budget

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم

ماہ صیام کی ایک افطاری جو بلاول بھٹو کی جانب سے دی گئی اس میں متفقہ فیصلہ ہوا کہ اے پی سی بلائی جائے گی اور حکومت وقت کے خلاف عید کے بعدایک احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیا گیا لگتا یوں ہے کہ سب تدبیریں الٹ ہوتی دکھائی دیتی ہیں اپوزیشن کی بجائے نیب زیادہ متحرک نظر آیااور یوں لگا جیسے نیب نے ہی پکڑ دھکڑ کی تحریک شروع کر دی ہے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری پابند سلاسل ہو چکے ہیں یہ ان کے لئے یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں موصوف پہلے بھی برسوں پہ محیط جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں لمبی سزا پانے پہ ”سیاسی قیدی” اور ”مرد حر” جیسے لقبات سے نوازا گیا پی پی پی کی سیاسی تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ جیلیں اور صعوبتیں پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہیں زرداری کی گرفتاری کے اگلے ہی روز جب حکومت وقت اپنے وزیر خزانہ کے بغیر اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے جاری تھی سابق خادم اعلی کے بیٹے اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں حمزہ شہباز کی گرفتاری سامنے آئی اپوزیشن رہنمائوںکی گرفتاریوں سے موسم کی گرمی کے ساتھ ساتھ سیاسست کے ایوانوں میں ایک تلاطم پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریاں درست یا غلط اس کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے اور محض الزامات کی بنیاد پہ مجرم اور چورچور کا شور مچانا مہذب افراد کا شیوہ نہیں۔

قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 2019-20ء کا 8238.1ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ‘جو 2018-19کے بجٹ کے مقابلے میں 38.9فیصد زیادہ ہے ، آئندہ مالی سال 2019-20کے بجٹ میں چینی ،گھی، مشروبات ،تیل،سگریٹ ،خٹک دودھ ، پنیر ، کریم ، سیمنٹ ، سی این جی ،مہنگا کر نے ،سنگ مرمر کی صنعت پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے، سیمی پراسسڈ اورپکے ہوئے چکن،مٹن، بیف اورمچھلی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز جبکہ پنشن میں 10 فیصد ،ایک سے سولہ گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اور سولہ سے بیس گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 5فیصد اضافہ ہوگا ،21سے 22گریڈ کے ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جائیں گی ،مزدور کی کم از کم تنخواہ 17500روپے مقرر کر دی گئی ،تنخواہ دار طبقے کیلئے بارہ لاکھ روپے سالانہ آمدن پر چھوٹ ختم کر کے اس کی حد چھ لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ،اس طرح پچاس ہزار روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ وصول کر نے والو ں کو ٹیکس دینا ہوگا ،ترقیاتی بجٹ کیلئے 1800 ارب سے روپے ،دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 20 ارب روپے ، داسو ہائیڈرو منصوبے اور مہمند ڈیم کے لیے 15، 15 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے ریکارڈ 43 ارب روپے ، زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے، کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رہے گا۔

حسب روایت حکومتی حلقے نئے وفاقی بجٹ کوعوام کی امنگوں کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں ان کا موقف کہ ہے نئے بجٹ سے نئے سفراور نئے پاکستان میں ترقی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوگا ہر سو امن شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی غربت کا خاتمہ ہوجائے گا مہنگائی اور ڈالر جس کا چولی دامن کا ساتھ ہے حکومت کے کنٹرول میں ہوگا جبکہ متحدہ اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت کے نئے بجٹ کو عوام دشمن کہہ کر مسترد کر چکی ہے ایوان اور باہر ہر جگہ نئے بجٹ کی پھرپور مخالفت کا اعلان کر چکی ہے۔

نئے بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر قرار دے رہی ہیمنگل کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2019-20ء کے وفاقی بجٹ کی تقریر وزیر مملکت حماد اظہر نے شروع کی تو اس وقت ایوان میں اپوزیشن کے اراکین موجود نہیں تھے تاہم بعد ازاں تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں آئے اجلاس کے دور ان مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت کی بجٹ اجلاس میں اپوزیشن اراکین تاخیر سے ایوان میں آئے تو انہوں نے آتے ہی بجٹ تقریر کی کاپیاں نہ ملنے پر کھڑے ہوکر احتجاج کیا جس پر سپیکر کے کہنے پر انہیں فوری طور پر بجٹ کی کاپیاں مہیا کی گئیں۔

حکومت کے پہلے بجٹ میں اشیاء خوردو نوش پہ نئے ٹیکس لگانے سے ہوش ربا اضافے کا سوفیصد امکان ہے پاکستان کی عوام تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس کے رہ گئی نئے ٹیکسز سے رہی کسر بھی پوری کر دی جائے گی عام استعمال اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں بلکہ ذلت و رسوائی کا موجب ہوگا عوام دشمن پالیسیوں سے اپوزیشن کی جانب سے متوقع تحریک کو تقویت ملے گی جو حکومت کے لئے باعث پریشانی ہے۔

Dr. B.A. Khurram

Dr. B.A. Khurram

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم