آصف علی زرداری کی گرفتاری کے مناظر یوں تو عمومی سے تھے مگر آصفہ بی بی کا باپ گلے لگا کر رخصت کرنے کا منظر کئی کہانیاں دہرا گیا ۔جب تین اپریل 1979کو ایک بیٹی اپنے باپ سے آخری ملاقات کرتے ہوئے باپ اور بیٹی کے درمیان جاری گفتگو ریاستی اہلکار نے time is over کہہ کر روک دی تھی۔اس نوعمر بچی پراس وقت کیا گزری ہوگی۔نوجوان پنکی جو بعد میں بے نظیر بنی۔جس نے وطن پر باپ ، دوبھائی قربان کردیئے۔پھر خود بھی قربان ہو گئی۔تاریخ کا چکر گھوم کر بے نظیر کی پنکی پر آکھڑا ہوا ہے۔
آصفہ بی بی بھی time is over کا شکار ہوئی ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بچے جنہوں نے ہر ظلم سہا اور پاکستان کی عوام سے رشتہ نہیں ٹوٹنے دیا۔تاریخ کا ستم ہے کہ آج محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بچے اسی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔یہ بچے بھی کیا بچے ہیں ۔اے بی سی بھی پڑھنا نہیں سیکھی تھی تو ماں کی انگلی پکڑ کر عدالتیں دیکھتے رہے۔جیل میں بند اپنے باپ سے ملنے جاتے رہے۔بتایا جاتا ہوگا کہ تمہارے نانا ان ہی جیلوں میں بند رہے اور پھانسی چڑھا دیئے گئے تھے۔
تمہارے ایک ہونہار ماموں تھے ۔جنہیں دیار غیر میں ہی موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔دوسرے ماموں کا لاشہ تو خود بچوں نے ٹی وی سکرین پر دیکھا ہوگا۔جب ماں وزیراعظم تھی ۔یہ بچے بھی کیا بچے ہیں ۔جو ماں کی لاش وصول کرتے ہیں اور جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگاتے ہیں۔یہ جو آصفہ بھٹوزرداری ہے۔کتنی بڑی ہوگئی ہے۔بوڑھے باپ کو گلے لگا کر جیل کے لئے الوداع کررہی ہے۔بلاول ساتھ کھڑے وکٹری کا نشان بنا رہے ہیں۔یہ کس دنیا سے آئے ہیں۔جن کی آنکھوںمیں خون اترتا ہے اور نہ آنسو بہتے ہیں۔اتنی قربانیاں ۔اتنی برادشت۔اتنا حوصلہ۔اتنا ضبط۔سوال اٹھتا ہے ۔کس لئے۔بلاول بھی جونیئر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنی دنیابسا سکتے تھے۔آصفہ اور بختاور بھی فاطمہ بھٹو کی طرح کہہ سکتی تھی کہ اب بس مزید خون ہم نہیں دیکھ سکتے ۔اور بھی کئی مثالیں ہیں۔شہباز شریف کے بچے ہیں ۔نواز شریف کے بچے ہیں ۔جنہوں نے اپنے عیش آرام کو ترجیح دی ہے۔
اپنے کاروبار کا اہم سمجھا ہے۔یہ بے نظیر کے بچے بھی بے نظیر ہیں۔جنہوں نے ماں کی طرح پاکستان کے عوام سے رشتہ رکھنا ہے چاہے جان چلی جائے۔ماں کا قتل کس کمال ہمت اور حوصلے سے سہہ جاتے ہیں ۔جوان ہوتے ہیں تو بوڑھے باپ کو کس کمال ہمت وحوصلے اور جرات سے جیل کیلئے الوداع کہہ کر بلاول پارلیمنٹ کا رخ کرتاہے اور آصفہ پارٹی اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچ جاتی ہے۔ کون سی کشش ہے جو تمام تر ابتلا میں بھی انہیں استقامت سے عوام کے ساتھ کھڑے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی کوکھ کا اثر ہے۔جو انہیں چین نہیں لینے دیتا ہے ۔دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دس سال سے زائد جیل میں گزارتا ہے۔پانچ سو مرتبہ عدالتوں میں پیش ہوتا ہے۔
بے تحاشا میڈیا ٹرائل کا شکار رہتا ہے۔عمر آخری حصے میں بھی مسکرا کر جیل کیلئے خاموشی سے چل پڑتا ہے۔ماتھے شکن تک نہیں آتی ہے۔کوئی مزاحمت،کوئی احتجاج ،کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا ہے۔عام طور باپ اولاد کے سکھ کی خاطر سمجھوتہ کر جاتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ بے نظیر بچے ہی باپ کی ہمت بڑھاتے ہوں کہ ڈٹے رہیں ۔یقین ہے کہ شہیدبے نظیر بھٹو کی اولاد ہمت ہی بڑھاتی ہوگی۔دنیا نے دیکھا کہ آصفہ بی بی جب بالکل بچی تھی تب بھی عدالتوں میں پیشی پر آئے والد سے ملتی تھی اور جیل کی سلاخوں کے ساتھ کھڑی ہوکر والد کو دیکھتی تھی۔آج بھی اس نے جرات و بہادری کے ساتھ باپ کو جیل کیلئے گاڑی میں بیٹھتے دیکھا ۔بے شک بے نظیر ماں کے بے نظیر بچے ہیں۔