پی ٹی آئی حکومت نے ٧٠ کھرب ٣٦ ارب کابجٹ برائے سال٢٠١٩۔ ٢٠ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔بجٹ میں٣٦ کھرب کا خسارہ بتایا گیا۔یہ پی ٹی آئی حکومت کا پہلا بجٹ ہے۔سراج الحق صاحب سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ بجٹ تو آئی ایم ایف کا ہے۔ صرف پیش پی ٹی آئی نے کیا ہے۔کیوں نہیںکہیں کہ بجٹ بنانے والے تمام حضرات آئی ایم ایف کے ملازمین ہیں۔ ان ہی آئی ایم ایف سے ٦ ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ بھی کیا۔اپوزیشن نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑدیں۔ اسپیکر کا گہرائو کیا ۔گو گو نیازی کے نعرے لگائے اوربجٹ کو مسترد کر دیا۔ لگتا ہے کہ یہ سب نواز اور زردادی کرپشن بچائو مہم تھی۔ عوام کے مسائل کا کسی کو فکر نہیں۔ اصل اپوزیشن جماعت اسلامی ہے ۔جس نے مہنگائی اور کرپشن کے خلاف ملک گھیر آگاہی کا آغاز ١٦ جون سے لاہور سے کرنا کا اعلان کر رکھا ہے۔
ویسے پاکستان کا بجٹ کیا ہوتا ہے بس بجٹ تماشا ہوتا ہے۔ جو گذشتہ ٣٥ سال سے پیپلز پارٹی اور نواز شریف اپنے اپنے دوراقتدار میں پیش کرتے آئے ہیں۔یہ بجٹ سالوں سے غریب عوام کے نام سے دونوں پارٹیاں پیش کرتی رہی ہیں۔ عوام اسے تماشا نہ کہیں تو کیا کہیں۔ ان بجٹوں کی وجہ سے پاکستان کے غریب،غریب تر ہوتے رہے اور حکمران امیر سے امیر تر ہوتے رہے۔ عوام کو بجٹ کاگو رکھ دھندہ سمجھ ہی نہیں آتا۔ایک وقت تھا کہ گھر کا ایک فرد نوکری کرتا تھا اور پورے خاندان کا کفیل ہوتا تھا۔اب گھر کے سارے افراد کام کرتے ہیں اورگھر کا بجٹ پھر بھی پورا نہیں ہوتا۔ عوام کی پریشانی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔
مہنگائی زروں پر ہے۔ گو کہ اس بجٹ میں نیچے گریٹ کے حکومتی ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں ١٠ فی صد کا اضافہ کیاہے اور٢١۔٢٢ گریٹ میں کچھ بھی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ فوج نے بھی دفاحی بجٹ میں کسی اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔مگر عوام پر١١ کھرب کے نئے ٹیکس لگائے جائیںگے جس مہنگائی مذید بڑے گی۔ عوام کی مشکلوں میں اضافہ ہو گا۔ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔جس دن ملک سے کرپشن کلچر ختم ہو گیا اس دن سے ملک خوشحال ہو تا جائے گا۔ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں۔کتنے شرم کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے زرداری دور میں باہر ملک سے جو امداد ملتی تھی وہ کرپشن کی نظر ہوجاتی تھی۔ ایک وقت آیا کی بیرون ملک والے کہنے لگے کہ ہم پیپلز پارٹی کی حکومت کو امداد نہیں دیں گے وہ کرپٹ ہیں۔ ہم خودبلاواستہ پاکستانی عوام کو امداد دیں گے۔ اس طرح بیرون ملک اپنے من پسند این جی اوئزکے ذریعے امداد تقسیم کرتے رہے۔
امریکی این جی او سیف دی چلذرن نے اسی امدادسے ملک دشمن سرگرمیاں کیں۔بچوں کوویکسین پلانے کے لیے اپنی جاسوس بھرتی کیے۔ ان جاسوسوں نے ایبٹ آباد میںگھر گھر جا کر اسامہ بن لادن کو تلاش کیا۔ ڈاکٹرشکیل آفریدی اس مہم کا انچارج تھا۔ جو پاکستان سے غداری کا مرتکب ہوا۔ اب ملک و قوم میںبدنامی کے ساتھ ساتھ سزا بھگت رہا ہے۔ ایسی اور درجنوں این جی اوز ہیں جو بیرونی سرمایا سے ملک پاکستان میں جاسوسی کر رہی ہیں۔ غریب عوام کی مدد کر نے کے بہانے ان کے ذہن تبدیل کر رہے ہیں۔ بے حیائی پھیلا رہی ہیں۔ان ہی این جی اوز کی عورتیں پبلک پلیسز پر پلے بورڈ پکڑے گھڑی ہوتی ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے ۔میرا جسم میں جیسے استعمال کروںمیری مرضی۔ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے دردی ہے۔ ہم ابو جہل کا دن منائیں گے کیونکہ وہ سب سے بڑا قوم پرست تھا۔یہ سب بیرونی امداد کے شاخسانے ہیں۔ نہ ہی ان ملک دشمنوں کو کرپشن کا پیسا ملے اور نہ ہی وہ ملک دشمن سرگرمیوں ملوث ہوں۔
ددسری طرف سیاستدانوں نے سیاست کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے۔ سیاست میں انوسٹمنٹ کرتے ہیں پھر واپس کئی گناہ منافے کے ساتھ کرپشن کر وصول کرتے ہیں۔ ایک کروڑ لگائو۔ الیکشن جیت کر ایک ارب کمائو کا ریٹ چل رہا ہے۔جس سیاسی پارٹی کا وزیر اعظم بنتا ہے اُس کے تو وارے نہارے ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کے ذریعے کرپشن کا پیسہ باہر منتقل کر دیتے ہیں۔لائنچوں کے ذریعے پیسے باہربھیجتے ہیں۔ماڈلزگرل کے ذریعے ڈالر باہر منتقل کرتے ہیں۔ پان والے،ریڑھی والے اور لسی والے کے جعلی اکائونٹوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ بے نظیر صاحبہ وزیر اعظم پاکستان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں پیسا محفوظ نہیں ہوتا اس لیے سیاست دان اپنا سرمایا باہر رکھتے ہیں۔ ان کے سادگی پر قربان جائیں ۔آ پ ملک کی وزیر اعظم ہیں آپ قانون سازی کر کے ملک کا پیسا باہر رکھنے سے روکتی کیوں نہیں؟اس طرح نواز شریف صاحب سے اگر کوئی معلوم کرتا ہے آپ کی آمدنی سے اخراجات زیادہ ہے تو ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کہتے ہیں آپ کوکیا تکلیف ہے اگر میرا رہن سہن میری آمدنی سے لگانہیں کھاتا۔کیا زرداری اور نواز شریف کے اثاثے باہر نہیں۔ کیا وہ عدالت سے کرپشن ثابت ہونے پر سزا نہیں کاٹ رہے۔ اب زرداری کو نیپ نے جیل میں بند نہیں کر دیا۔مہذب دنیا میں کسی سیاسی لیڈر پر کرپشن کا الزام لگ جائے تو وہ پانی پانی ہو جاتا ہے۔ اور ہمارے سیاست دان وکٹری کا نشان بنا کر جیل جاتے ہیں۔کیا عوام کو نہیں پتا کہ نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری نے ملک کو لوٹا۔ عمران خان صحیح ہی تو کہتا ہے کہ دس سال کے اندر ملک ٢٤ ارب ڈالر کا مقروض ہو گیا۔٦ ارب ڈالر سے ٣٢ ارب ڈالر قرضے کیسے پہنچ گئے۔
عمران خان نے اس پر ایک خود مختیارکمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کہ دیکھا جائے یہ قرضوں کا پیسا کہاں گیا۔ عمران خان نے بجٹ کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میںحکومت میں آیا تو٣٢ ارب ڈالر قرضے کا سود ادا کرنے چین ،سعودی عرب اور قطر سے قرض مانگ کر پاکستان کو دیوالہ ہونے سے بچایا۔ اب ٦ ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرضے کا معاہدہ کیا تاکہ ملک کے اخراجات پورے ہوں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کی مدد کرنے کے بجائے کہتے ہو، کہ تم تو کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ بندہ خود کشی کر لے۔ اللہ کے بندوں تمھارے کرتوتوں اور تمھارے وقت کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے کے مجبوراً آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑھ رہاہے۔ عمران خان نے کہا کہ میرے ملک کے غریب عوام کا جینا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لیڈروں نے حرام کر دیا ہے۔میں نے اب ملک کو دیوالیہ ہونے تو بچالیا۔ اب میں سارا وقت تم دونوں سے عوام کا ہڑپ کردہ پیسا نکالوں گا۔ عمران خان نے کہا کہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمے قائم کیے تھے۔ دونوںنے ملک کر نیب کا چیف لگایا تھا۔ میںنے نہ نیب کا چیف لگایا نہ ہی پرپشن کے مقدمے قائم کیے۔ دونوں پارٹیوں نے میثاق جمہورت کیا تھا۔ اصل میں وہ کرپشن میں ایک دوسرے کو نہ پکڑنے کا میثاق تھا۔عمران خان نے سختی سے کہا کہ ملک سے کرپشن ختم کر کے رہوں چاہے میری جان چلی جائے۔ واقعی اس ملک سے اگر کرپشن ختم ہو جائے تو یہ ملک عظیم بن سکتا ہے اور یہ کام عمران خان نے اپنے سر لے لیا ہے۔مگر ہم عمران خان وزیر اعظم صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کام کے ساتھ ساتھ ملک کے غریب عوام کے سروں سے مہنگائی کے عذاب کو ٹالنے کی بھی کوششیں جاری رکھے۔