دی ہیگ (جیوڈیسک) ہالینڈ کے شہر دی ہیگ سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق خلیج کے خطے میں قطر اور سعودی عرب کی قیادت میں کئی دیگر عرب ریاستوں کے مابین پیدا ہونے والے شدید سیاسی اور سفارتی تنازعے کے بعد دوحہ حکومت کے خلاف یہ مقدمہ متحدہ عرب امارات نے دائر کیا تھا۔
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
اس میں سعودی عرب کی اس بہت قریبی اتحادی عرب ریاست نے اقوام متحدہ کی عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ خلیجی ریاست قطر کے خلاف اقدامات کا حکم دے۔ لیکن اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں کے مابین تنازعات کے قانونی حل کی ذمے دار اس اعلیٰ ترین عدالت نے جمعے کے دن اماراتی حکومت کا قطر کے خلاف یہ موقف قانوناﹰ خارج کر دیا۔
متحدہ عرب امارات نے اپنی درخواست میں قطر پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنی ہمسایہ دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ امتیازی رویوں کا مرتکب ہو رہا تھا۔ عدالت نے تاہم اس الزام کو مسترد کر دیا اور سولہ ججوں نے یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں پندرہ کی غالب اکثریت سے سنایا۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اس مقدمے میں دوحہ حکومت پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ خلیج کے علاقے میں عرب ریاستوں کے مابین پائے جانے والے تنازعے کو ہوا دے رہی تھی۔ اس سلسلے میں قطر کی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ملکی عوام کے لیے اماراتی حکومت کی ان ویب سائٹس تک رسائی کو روکنے کے خلاف شکایت بھی کی گئی تھی، جن کے ذریعے ماضی میں یو اے ای سے ملک بدر کیے گئے ہزاروں قطری شہری اپنے پرمٹ حاصل کر کے رہائش کے لیے دوبارہ امارات جا سکتے تھے۔ اس مقدمے میں دوحہ کی طرف سے اماراتی حکومت کے ان الزامات کی تردید کر دی گئی تھی۔
قطر اور متحدہ عرب امارات کے مابین اس قانونی تنازعے کا تعلق 2017ء کے اس واقعے سے ہے، جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگا کر نہ صرف اس کے ساتھ اپنے جملہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی رابطے منقطع کر دیے تھے بلکہ ساتھ ہی اس خیلجی ریاست کی زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی بھی کر دی گئی تھی۔
قطر نے تب بھی اپنے خلاف ایسے الزامات کی تردید کی تھی اور آج تک کرتا آ رہا ہے۔ اس مقدمے میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ قطر کے خلاف متحدہ عرب امارات کی درخواست میں جن حقوق کی نفی کی بات کی گئی ہے، وہ عالمی ادارے کے امتیازی رویوں کے خلاف معاہدے کے زمرے میں نہیں آتے۔
اس کے علاوہ یہ تنازعہ اس حد تک فوری توجہ کا حقدار بھی نہیں کہ عدالت اس میں فی الفور کوئی عبوری فیصلہ سنائے۔ مزید یہ کہ اگر اس بارے میں پھر بھی مزید کوئی فیصلہ ضروری ہوا، تو وہ ممکنہ طور پر اگلے برس اس مقدمے کی دوبارہ مکمل سماعت کے بعد ہی سنایا جا سکے گا۔
اپنے فیصلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے متحدہ عرب امارات اور قطر دونوں ہی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کسی بھی طرح کے ایسے اقدامات سے گریز کریں، جن کی وجہ سے قطر اور دیگر عرب ریاستوں کے مابین موجودہ تنازعہ مزید شدید ہو سکتا ہو۔