لاہور (جیوڈیسک) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جاتی امراء میں ملاقات کی۔
مریم نواز نے گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری کو ملاقات کی دعوت دی تھی جسے بلاول نے قبول کیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری سابق وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امراء پہنچے جہاں مریم نواز نے ان کا استقبال کیا، ملاقات میں دونوں جانب سے چند قریبی رفقاء بھی شریک تھے۔
بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ قمر زمان کائرہ، چوہدری منظور، حسن مرتضی، اور مصطفیٰ نواز کھوکھر موجود تھے۔
جب کہ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب، رانا ثنا اللہ اور ایاز صادق، محمد زبیر اور پرویز رشید بھی شریک تھے۔
وفود کی سطح پر ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے بعد مریم نواز اور بلاول بھٹو نے ون آن ون ملاقات بھی کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے موجودہ حکومت کے خلاف فیصلہ کُن تحریک کے حوالے سے غور کیا۔
دونوں رہنماؤں نے وفاقی بجٹ منظور نہیں ہونے دینے کے حوالے سے مل کر حکمت عملی بنانے پر اتفاق کیا۔
ملاقات میں میثاقِ جمہوریت کی روح کے مطابق آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا اور اتفاق کیا گیا کہ آئین کی سربلندی اور جمہوریت ہی ملک کو آگے لے جاسکتی ہے۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق مریم نواز کی دعوت پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری رائے ونڈ آئے جہاں دونوں رہنماؤں کے درمیان طویل مشاورت ہوئی جس میں دونوں جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوئے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں موجودہ ملکی صورت حال پر تفصیل سے غور کیا گیا، مریم اور بلاول نے اتفاق کیا کہ ملک میں ہر شعبہ زندگی زوال کا شکار ہے، ملک کو اقتصادی تباہ حالی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ معیشت کے تمام اعشاریے شدید بحران کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان کو عالمی ساہوکا روں کے پاس گروی رکھ دیا گیا، قومی ادارے غیروں کے سپرد کرنے کے باوجود صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے، روپے کی قیمت مسلسل گر رہی ہے اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔
اعلامیے کے مطابق مریم بلاول ملاقات میں چیئرمین نیب کی یکطرفہ انتقامی کارروائیوں اور حکومتی ملی بھگت کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ ٹارگیٹڈ سلوک پر بھی غور کیا گیا جب کہ نیب کے جعلی، بےبنیاداور من گھڑت مقدمات سے متعلق عدالتوں کا طرز عمل بھی زیر غور آیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کی مجوزہ اے پی سی اور دونوں جماعتوں کے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی بات چیت کی گئی اور اتفاق کیا گیا کہ موجودہ غیر نمائندہ حکومت عوام کے حقیقی مینڈیٹ کی ترجمانی نہیں کرتی۔
مشترکہ اعلامیے میں کہنا ہے کہ دونوں حماعتوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں دھاندلی زدہ انتخابات کے جعلی نتائج کو نظر انداز کیا لیکن دس ماہ کے دوران حکومت کی نااہلی نے معیشت، قومی سیاست و انتظامی کارکردگی کو بھی تماشا بنا دیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق حکومتی رویے نے پارلیمنٹ کو بھی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، سلیکٹڈ وزیر اعظم اور نالائق حکومت کے طرز عمل سے سفارتی سطح پر ملک کی رسوائی ہو رہی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 2006 میں میثاق جمہوریت کا ذکر بھی آیا اور دونوں رہنماؤں نے میثاق جمہوریت کو ایک اہم دستاویز قرار دیا۔
دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ میثاق جمہوریت کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے خلاف حکومتی ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف ریفرنس بد نیتی پر مبنی اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔
اعلامیے کے مطابق مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے کی شدید مذمت کی اور عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے لیے بھر پور جدوجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
دونوں رہنماؤں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے گرفتار ارکانِ کے پروڈکشن آڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی جانبدارانہ رویہ ترک کریں، تمام پابند سلاسل قومی اسمبلی کے ارکان کے فوری طور پر پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔
بلاول سے ملاقات کے حوالے مریم نواز کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ بلاول سے ملاقات نواز اور شہباز شریف کی اجازت سے ہو رہی ہے جس کے لیے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام فیصلےنواز شریف اور شہباز شریف سمیت پارٹی کے رہنماؤں سے مشاورت سے کیےجاتے ہیں، پارٹی کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پاسداری مجھ سمیت سب پر لازم ہے۔
اُدھر بلاول بھٹو زرداری کا مریم نواز کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ مریم نواز سے ضرور ملیں گے کیونکہ پاکستان کے مسائل حل کرنا کسی ایک جماعت کے لیے ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل رمضان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو افطار ڈنر پر مدعو کیا تھا جس میں عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔