سوچیں یلغار کرتی ہیں تو سب کچھ تلپٹ ساہو جاتا ہے اردگرد کو ماحول کو دیکھیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ملک کو کیا ہو گیا ہے؟ کسی کی نظر ِبدتو نہیں لگ گئی کوئٹہ سمیت بلوچستان کئی علاقوں میں وہی مارا ماری لوگوں کو بسوں سے اتار اتار کر قتل کیا جا رہا ہے ایسے واقعات تواتر سے رونما ہورہے ہیں اوو قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں کراچی کے گلی کوچے روزانہ بے گناہوں کے خون سے لہو لہان ہو رہے ہیں یہی پنجاب کے مختلف شہروں کا ہے بم دھماکے،خودکش حملے کیا کم تھے کہ چوری ڈکیٹی ،راہزنی کی وارداتوںمیں مرنے والوںکی تعداد الگ ہے جس شہر کی طرف نظر دوڑائیں لگتاہے جیسے ہر طرف اک آگ سی لگی ہوئی ہے دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے الہی !پاکستان کی خیرہواس وقت ہر پاکستانی انپے مستقبل سے مایوس نہیں تو پریشان ضرور ہے
یقیں تجھ کو کہ رستہ کٹ رہا ہے گماں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں
اس شعر کی متضاد کیفیت کی طرح ہم وطن مختلف نظریات کے حامل بن کررہ گئے ہیں حالانکہ اس وطن کی مٹی ہم سب کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم حضرت قائداعظم کے بیٹے بن جائیں جس طرح بابائے قوم نے پاکستان بنانے کیلئے اپنی نیند ،آرام ،سکون حتیٰ کہ اپنی روح بھی وطن عزیز پر قربان کردی اور کراچی میں گہری نیند سو گئے لوگ سمجھتے کہ وہ گہری نیند سو کر ہم سے علیحدٰہ ہو گئے ہیں مگر میں ایسا ہرگز محسوس نہیں کرتا میرے احساسات یہ ہیں کہ وہ آج بھی روحانی طورپر ہمارے شانہ بشانہ ہیں اورہمیشہ رہیں گے ہمارے لیڈر بھی بابائے قوم حضرت قائداعظم کی طرح وطن عزیز پاکستان سے محبت کا ثبوت دیں مجھے یقین ہے جب بھی پاکستان کسی مشکل میں مبتلاہوگا قائدکی روح ضرور بے چین اور مضطرب ہو جاتی ہوگی میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج ملک سے دہشت گردی،لوڈشیڈنگ اور غربت جیسے گھمبیر مسائل کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔
اآئو ہم مل کر وطن عزیز کو ترقی کی اونچی منزلوں تک لے جائیں اس جدوجہد میں ہمیں کچھ قربان بھی کرنا پڑے تو کسی قسم کا گریز نہ کیا جائے۔ جو حالات اس وقت پیارے وطن کو درپیش ہیں اسی لئے یقینا سوچیں یلغارکرتی ہیں تو سب کچھ تلپٹ ساہو جاتاہے اردگردکو ماحول کو دیکھیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ملک کوکیاہوگیاہے؟ کسی کی نظر ِبدتو نہیں لگ گئی لیکن ایک بات ہے اگر ہم اپنے ملک سے پیار کریں توپاکستان ایک طاقتور ملک بن کرابھر سکتا ہے اور ہم بھی اقوام عالم میں شان سے جینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
دنیا میں قارون جیسے بادشاہ ہوگزرے ہیں لیکن جب وہ مرے تو خالی ہاتھ دنیا سے کوچ کرگئے اور آج اس کا کوئی نام لیوا نہیں پھر کیوں دولت کیلئے حرام ،حلال ،اچھائی ،برائی کھوٹے کھرے کی تمیز ختم ہوکررہ گئی ہے موت تو امیر ۔غریب ،بادشاہ فقیر سب کو آنی ہے یہ موت ایک اٹل حقیقت ہے ہم نے بھی مر جانا ہے لہذا مرنے سے پہلے کوئی ایسا کام کر جائیں کہ رہتی دنیا تک نام زندہ ٔ جاوید رہے اور مسلمان قارون کی موت نہ مریں ، انسان کی موت مریں کیونکہ کئی عیسائی،سکھ ،ہندو شخصیات نے انسانیت کی بھلائی کیلئے ایسے کام کئے ہیں وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں گلاب دیوی ،سرگنگارام ،لیڈی ولنگڈن کے ناموں سے موسوم ہسپتال و رفاہی ادارے اس کی نادر مثالیں ہیں جب تک آدمی سے انسان بننے کی جدوجہد نہیں کی جاتی بشرکے آدمیت کے تقاضے پوری نہیں ہوتے ، اگر مسلمان ایسے سماجی بہبودکے کام کرنے کیلئے میدان میں سرگرم ِ عمل ہو جائیں تو مسلمان کردار کی بلندیوں پر پہنچ کرہی حضور اکرم ۖ کے افکار پرعمل پیرا ہو سکتے ہیں۔
اگر ان باتوں پر دھیان نہ دیا گیا تو اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے ایسا انقلاب آئے گا جو خونی انقلاب سے کم نہ ہوگا۔ میرے وطن کی تمام ایجنسیاں I.S.Iسمیت محب وطن ہیں کوئی ان کے متعلق ہرزہ سرائی نہ کرے ہمارا ایک ہی مشن ہونا چاہیے کہ پاکستان کو ہر لحاظ سے مضبوط اورمستحکم بنانا ہے وطن سے محبت ایمان کی علامت ہے تمام ہم وطن اپنی بہادر افواج کے ساتھ ہیں جب بھی مادر وطن پرکوئی کڑا وقت آیا افواج ِ پاکستان نے دشمن کے دانت کھٹے کردئیے اور ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دفاع کیا ہمارے فوجی جوانوں نے پاکستان کیلئے بہت قربانیاںدی ہیں ہمیں اپنے شہیدوں اور غازیوں پر بہت فخر ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ پاکستان دشمن عناصر کو صفحہ ہستی سے مٹادیںعوام ان کے ساتھ ہیں کیونکہ سوچیں یلغارکرتی ہیں تو سب کچھ تلپٹ ساہو جاتاہے اردگردکو ماحول کو دیکھیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ملک کوکیاہوگیاہے؟ کسی کی نظر ِبدتو نہیں لگ گئی یہ الگ بات کہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والوں کو عام آدمی کی مشکلات کا کیا احساس ہو سکتا ہے جس طرح ساون کے اندھے کو ہرا ہرا سوجھتاہے اسی طرح اشرافیہ کو بھی لوگوںکے معاملات سے سروکارنہیں ان حالات میں پاکستان میں عام آدمی کسی بھی طریقے سے خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتا عام شہریوں میں کوئی بہت زیادہ محنت کرلے۔یا۔اس کے فیملی ممبربیرون ِ ممالک ملازمت یا کاروبار بھی کرلیں اس کی دو تین نسلوںکا مقدر پھربھی غربت ہے اور یہ غربت اس کی قبر کی دیوار تک ساتھ جاتی ہے یہ طبقاتی فرق مرنے کے بعد بھی برقراررہتاہے۔ ایسا کیوںہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو نتیجے کے طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے بااثر لوگ ہی اصل میں مسائل کی اصل وجہ ہیں جنہوں نے آج تک اس ملک کا کوئی سسٹم نہیں بننے دیاشاید اسی لئے کبھی کبھی یہ شعر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یقیں تجھ کو کہ رستہ کٹ رہا ہے گماں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں
سوچیں یلغارکرتی ہیں تو سب کچھ تلپٹ ساہو جاتاہے اردگردکو ماحول کو دیکھیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ملک کوکیاہوگیاہے؟ کسی کی نظر ِبدتو نہیں لگ گئی اللہ کرے اب معاملات ٹھیک ہو جائیںہر بیقرار دل کو قرار آجائے دل تو کہتاہے ہماری تمام تر خامیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کے باوجود پاکستان پر انشاء اللہ کوئی آنچ نہیں آنے والی یہ ملک کلمہ ٔ طیبہ کی بنیادپر قائم ہوا اللہ ہی اس کی حفاظت فرمانے والا ہے۔