اسرائیل (جیوڈیسک) اسرائیل کی ایک عدالت نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی اہلیہ کو سرکاری رقوم کے ناجائز استعمال کے کیس میں قصور وار قرار دے دیا ہے۔ تاہم استغاثہ کے ساتھ ڈیل کے تحت وہ قید سے بچ گئی ہیں اور انہیں صرف جرمانہ ادا کرنا ہے۔
سارہ نیتن یاہو نے اتوار سولہ جون کو عدالتی سماعت میں خود پر عائد کردہ الزامات کو تسلیم کیا۔ استغاثہ کے ساتھ طے کردہ ایک معاہدے کے تحت اسرائیلی وزیر اعظم کی اہلیہ اپنے جرم پر جیل نہیں جائیں گی لیکن انہیں تقریبا ساڑھے بارہ ہزار ڈالر کے برابر رقوم واپس جمع کرانی ہوں گی جبکہ ساتھ ہی 2,775 ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ تقریبا پندرہ ہزار ڈالر کی یہ رقوم وہ قسطوں میں ادا کریں گی۔
سارہ نیتن یاہو پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک اور سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر دھوکے سے تقریبا ایک لاکھ ڈالر کے برابر سرکاری فنڈز حاصل کیے، جنہیں بعد ازاں عالی شان دعوتوں اور کھانوں پر صرف کیا گیا۔
اسرائیلی قوانین کے مطابق اگر اس سطح کے سرکاری عہدیداران کے ہاں باورچی ہو، جس کی تنخواہ بھی سرکاری فنڈز سے دی جاتی ہو، تو انہیں ہوٹلوں وغیرہ سے منگوائے جانے والے پکوان کے لیے سرکاری فنڈز خرچ نہیں کرنے چاہییں۔ البتہ عدالتی کارروائی سے قبل استغاثہ کے ساتھ طے پانے والی ایک ڈیل کے تحت سارہ نیتن یاہو پر عائد زیادہ سنگین الزامات خارج کر دیے گئے۔
اسرائیل کی ایک YNet نامی ویب سائٹ نے ایک تصویر جاری کی ہے، جس کے بارے میں ویب سائٹ کا دعوی ہے کہ وہ اس تحریری پیغام کی ہے، جو عدالتی سماعت کے دوران نیتن یاہو نے اپنی اہلیہ تک پہنچایا تھا۔ اس پیغام میں مندرجہ ذیل الفاظ درج تھے، ”ہم اس امتحان سے بھی گزر جائیں گے۔ مضبوط رہو۔
اس ڈیل اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں سارہ نیتن یاہو کے خلاف جاری قانونی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے لیکن وزیر اعظم کے ستارے اب بھی گردش میں ہیں۔ انہیں بھی بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے۔