تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا

 Sami Ibrahim - Fawad Chaudhry

Sami Ibrahim – Fawad Chaudhry

تحریر : مراد علی شاہد

گذشتہ روز فیصل آباد میں شادی کی ایک تقریب میں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے پاکستان کے معروف صحافی، اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے منہ پر اس وقت طمانچہ دے مارا جب وہ شادی کی رسومات سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے،بقول سمیع ابراہیم اور رئوف کلاسرہ کے ہم ڈی جی ایف آئی اے شریف میمن کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے کہ ایسے میں فواد چوہدری گالیاں نکالتے ہوئے آئے اور مجھے ایک گھونسہ رسید کر دیا اور وہاں سے چل پڑے،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حالات بھی ایسے نہیں تھے اور پھر میں بھی ذہنی طور پر اس عمل کی توقع نہیں رکھتا تھا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”میں تمہیں فکس کرتا ہوں”۔اگرچہ یہ سب اچانک سے نہیں ہوا ،اس کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہے کہ پچھلے چند روز سے سمیع ابراہیم ایک خبر دے رہے تھے کہ فواد چوہدری کے در پردہ پیپلز پارٹی سے رابطے ہیں جو کہ مستقبل میں تحریک انصاف کے لئے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔جس کا رد عمل فواد چوہدری کی طرف سے ایک گھونسہ اور گالیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

فواد چوہدری کوئی عام راہ چلتے انسان نہیں ہیں،پاکستان کے سب سے مقدس ادارے پارلیمنٹ کے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہیں اور کہنہ مشق سیاستدان ہیں۔ایک جمہوری ملک میں جمہوریت پسند اور ریاست مدینہ کی طرز کی حکومت کے لئے کوشاں حکومت کے ذمہ دار فرد ہیں۔اگر انہیں سمیع ابراہیم سے کوئی ذاتی گلہ شکوہ یا رنج تھا تو انہیں بھری محفل میں ذلیل نہ کرتے بلکہ انہیں سائیڈ پر لے جا کر اپنا احتجاج اور صفائی پیش کرتے کیونکہ جمہوریت اور ریاست مدینہ کی بنیاد تو برداشت پر ہی استوار کی گئی ہے۔اگر ایسے ذمہ دار افراد میں برداشت کا مادہ نہیں ہوگا تو ذرا سوچیں کہ عوام میں قوت برداشت کہاں سے پیدا ہوگی۔

اختر وقار عظیم کی کتاب”ہم بھی وہیں موجود تھے”سے ایک واقعہ یاد آگیا کہ صدر ایوب پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے وہ روزانہ دو پیکٹ سگریٹ کے پیتے تھے،صبح بٹلر آتا دو پیکٹ رکھتا اور چلا جاتا،صدر ایوب اپنی صبح کا آغاز سگریٹ سلگا کر کرتے،ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے وہاں ان کا بنگالی بٹلر انہیں سگریٹ دینا بھول گیا۔صدر ایوب کو غصہ آیا اور اسے گالیاں دیں ،جب وہ گالیاں دے کر تھک گئے تو بٹلر بولا ”جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا،مجھے پاکستانی فوج اور اس کا مستقبل خطرے میں دکھائی دیتا ہے”بٹلر کی یہ بات صدر ایوب کے دل کو لگی اور پھر ساری زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔

آپ نے رستم زماں گاما پہلوان کا نام بھی سنا ہوگا،ایک بار ایک کمزور دوکاندار نے اس کے سر پر وزن کرنے والا باٹ دے مارا،گاما پہلوان کے سر سے خون نکلنا شروع ہو گیا مگر گاما پہلوان نے انہیں مارنے کی بجائے اپنے سر کو مفلر سے لپیٹا اور گھر کی راہ لی۔لوگوں نے کہا کہ گاما پہلوان ہمیں آپ سے یہ امید نہیں تھی آپ اسے ایک تھپڑ مارتے تو اس کی جان نکل جاتی گاما پہلوان نے جواب دیا کہ”مجھے میری طاقت نے نہیں بلکہ میری قوت برداشت نے رستم زماں بنایا ہے ،میں اس وقت تک رستم زماں رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی” ابراہم لنکن نے بھی ایسے ہی خیال کا اظہار کیا تھا کہ اگر کسی کے کردار کو جاننا ہو تو اسے اقتدار دے کر دیکھ لو۔جبکہ حضرت علی کا فرمان ہے کہ طاقت سے انسان کی اصلیت کا پتہ چل جاتا ہے۔

جبکہ ریاست مدینہ میں حکومت،اقتدار اور خلافت کا معیار یہ ہے کہ اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک پیاس سے مرگیا تو اس کی ذمہ داری بھی خلیفہ وقت پر ہوگی ۔فواد صاحب آپ کو اللہ نے اگر طاقت اور اقتدار دے ہی دیا ہے تو اپنے اندر برداشت،تحمل اور صبر پیدا کریں نا کہ عمران خان کے لئے مسائل پیدا کر کے سمیع ابراہیم کے شک کو حقیقت میں بدل دیں۔بات ایک صحافی،فرد یا سمیع ابراہیم کی نہیں،بات ہے ایک مائنڈ سیٹ کی کہ کون سی تبدیلی ہے جس کی بنیاد پر آپ نے عوام سے ووٹ حاصل کئے،کون سا وہ نیا پاکستان ہے جو سابق سے بہتر اور منفرد ہے۔

اگر یہ سب ہی کرنا تھا تو یہ تو پہلی حکومتوں میںبھی ہوتا آیا ہے۔آج اگر سمیع ابراہیم کے منہ پر طمانچہ مارا ہے تو کل کسی اور کی باری بھی آسکتی ہے۔اگر بنظر عمیق اور دور اندیشی سے دیکھا جائے تو یہ طمانچہ سمیع ابراہیم،صحافت یا کسی ذمہ دار شہری کے منہ پر نہیں بلکہ فواد چوہدری صاحب نے اپنی حکومت،عمران خان،جمہوریت اور ریاست مدینہ کے ان تمام دعویداروں کے منہ پر مارا ہے جو واقعی چاہتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی آئے اور اگر اس طرح کا رویہ تبدیلی کا عنصر ہے تو پھر ہم باز آئے ایسی تبدیلی سے۔ہم لنڈورے ہی بھلے۔

Murad Ali

Murad Ali

تحریر : مراد علی شاہد