واشنگٹن (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں خصوصی رپورٹ آج جاری کر دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر اعلٰی سعودی حکام پر اس قتل کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس قتل کے حوالے سے ایسے شواہد ملے ہیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن سلمان کے ساتھ ساتھ دیگر سعودی اہلکار اس میں ملوث ہیں۔
ایک سو صفحات پر مبنی اس رپورٹ پر ریاض حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ بتایا گیا ہے کہ آج بدھ 19 جون کو جاری کی جانے والی یہ رپورٹ سعودی حکام کو پہلے ہی ارسال کر دی گئی تھی۔ سعودی عرب متعدد مرتبہ جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کو رد کر چکے ہیں۔
اس ماورائے عدالت قتل پر تحقیقات کرنے والی اقوا متحدہ کی خصوصی نمائندہ آنیئس کالما نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر پابندیاں عائد کرے اور یہ بھی کہا ہے کہ محمد بن سلمان کو بھی ان پابندیوں میں شامل کیا جائے۔
ان کے بقول جب تک سعودی ولی عہد کی اس قتل کے حوالے سے بے گناہی ثابت نہیں ہو جاتی تب تک ان کے تمام ذاتی اثاثے بھی منجمد کیے جائیں، ”خاشقجی کے قتل کے اصل ذمہ داروں تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘‘
سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر 2018ء کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے ضائع کر دیا گیا تھا۔
آنیئس کالما کے مطابق، ” تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خاشقجی کو دانستہ طور پر اور پہلے سے تیار کی گئی منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا ہے۔ یہ ماورائے عدالت قتل ہے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی رو سے ریاض حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔‘‘
اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش سے مطالبہ بھی کیا کہ اس قتل کی مزید تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی کمیٹی بنائی جائے۔ آنیئس کالما نے یہ رپورٹ چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد مرتب کی ہے۔