ہمارے یہاں پروڈکشن آڈر کو ممبران اسمبلی ضمانت کے طورپر استعمال کرتے ہیں جہاں ضمانت کے قانونی امکانات کم ہووہاں اس طرح کے حربے استعمال کیئے جاتے ہیں پروڈکشن آڈر اسپیکر کا ثواب دید ہوتاہے جسے وہ استعمال کرتاہے جب وہ اسے محسوس کرے کہ ایوان میں متعلقہ ممبرکی موجودگی اسمبلی کی کارکردگی اور قانون سازی کے لیے ضروری ہے اور اسی لیے پاکستان میں چندایک جماعتیں ایسی بھی ہیں جو پروڈکشن آڈر کو اپنا حق سمجھتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کا مال ناحق اس طرح سے کھاجاتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلنے دیتے اور جہاں تک اسمبلی کی کارکردگی اور قانون سازی کے لیے ضروری والا لفظ ہے وہاں اس ملک کی عوام خود اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ حالیہ دنوں میں جن جن لوگوں کے پروڈکشن آڈر جاری ہوئے ہیں وہ کیا اسمبلی اور قانون سازی کرنے کے لیے کسی بھی لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں کیا قوم کو ایسے لوگوں سے کوئی توقع ہے کہ وہ اس ملک کی عوام کے لیے کچھ اچھے اقدامات اور فیصلے کرنے کی صلاحیت یا نیت رکھتے ہیں؟ اسمبلی میں جاکر دھما چوکڑی کرنا اور سیشن کو خراب کرنا یقینی طورپر غیر پارلیمانی رویہ ہے مگر کسی جائز مقصد کے لیے اعوان میں اپنی بات منوانا درست ہوسکتاہے مگر ایک چور اورلٹیرے پارلمینٹیرین کے لیے ہلڑ بازی کرنا سراسر قوم کا وقت برباد کرنے والی بات ہے۔
لہذا پارلیمنٹ کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدارممبران اور سیاسی جماعتوں کے اپنے رویے پر ہوتاہے کہ وہ کس حد تک اپنے اوپر جمہوری رویوں کو لاگو کرتے ہیں،اس کے علاوہ ہماری سیاست میں اداروں کا احترام اس وقت تک کیا جاتاہے جب تک ان کے مفادات کا سلسلہ آگے بڑھتارہے اور جہاں ان کے زاتی مفادات کو بریک لگی وہاں یہ ہی لوگ اداروں کو چیلج کرنا شروع کردیتے ہیں اور ملکی اداروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور انہیں کام نہیں کرنے دیتے، یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان اکثر جمہوریت کے مسائل سے دوچاررہتاہے یعنی جمہوریت کو استعمال کرنے والے ہی اس کے اصل دشمن ہوتے ہیں، ان کا مقصد جمہوریت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی اور ضرورت کے نتائج نکالنا ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسی تمام جماعتوں اور ان کے نام نہاد ممبران کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنس کی ویڈیو دیکھنی چاہیے جہاں ممبران پارلیمان میں سخت تقریریں تو کرتے ہیں لیکن جمہوری اصولوں اور اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جہاں حکومتی جماعتوں کی کچھ پالیسیوں پر تنقید تو کی جاتی ہے مگر جو قانون سازیاں ملک اور قوم کے مفاد میں ہو وہاں روڑے نہیں اٹکائے جاتے اور نہ ہی اداروں کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے،لیکن پاکستان میں کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جو اپنے ہردور میں اداروں کو اپنی لونڈی بناکررکھنا چاہتے ہیں، اور یہاں تو پاکستان میں سرعام ہی ملکی اداروں کو للکاردیا جاتاہے گزشتہ عرصے پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما کا بیان تقریباًپوری قوم نے ہی سن لیا ہوگا جس میں وہ نجی ٹی وی کو انٹرویومیں کہہ رہے ہیں کہ نیب کی کیا مجال جو مجھے گرفتارکرسکے؟ یہ لفظ یقینی طورپر پوری قوم اور قانون کا احترام کرنے والے لوگوں کے لیے حیران کن تھی یہ ہی صاحب کئی بار افواج پاکستان کو بھی للکارچکے ہیں جس کا ریکارڈ آج کل سوشل میڈیا پر باآسانی مل سکتاہے شاید ان صاحب کی اسی اداپر ان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پروڈکشن آڈر کے دباؤ کیلے گزشتہ دنوں اسلام آباد کی سڑکوں پر ان کی تصویر پر لکھا ہواتھا “پاکستانی نیلسن منڈیلا”خیر یہ سب کچھ دیکھ کر میں تو کیا پوری قوم ہی سکتے کی حالت میں تھی کہ بعض کارکنان اور ان کے لیڈر اپنی سیاست چمکانے کے لیے نیکی اور بدی دونوں کو ہی ایک تھالی میں لگاکر سجادیتے ہیں،اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کا ماضی ہی لوٹ مار کے نام سے پہچانا جاتا تھاجن کے نام کے ساتھ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ایک طویل داستان بندھی چلی آرہی ہو بھلا وہ کس طرح سے ایک عظیم لیڈر کے متبادل ہو سکتا ہے؟
جنوبی افریقہ میں رنگ اور نسل پرستی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کرنے والانیلسن مینڈیلا نے ہمیشہ لوگوں کو یہ ترغیب دی کہ وہ ہمیشہ لوگوں کی مددکریں،کبھی کسی غریب کا مال ناحق نہ کھائیں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کریں،حق اور سچ کی خاطرزندگی گزارنے والے نیلسن منڈیلا نے جلاوطنیاں بھی برداشت کی جیلیں بھی کاٹی مگر وہ جیلیں منی لانڈرنگ یا قوم کا پیسہ لوٹنے کے جرم میں نہیں تھی بلکہ انسانیت کی بے بہاخدمت کرنے کے صلے میں اور حق پر ڈٹے رہنے کے جرم میں تھی،امن کا نوبل انعام پانے والے نیلسن منڈیلانے اپنی زندگی کے بہترین 27قیمتی سال قید میں گزاردیئے مگر اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹایا، اسی نیک مقصد کے تحت قابل احترام نیلسن مینڈیلا نے پوری دنیاکی کتابوں میں اپنا نام ایک اچھے لیڈر اوررہنماؤں کی فہرست میں درج کروایااور پوری دنیا کے کرپٹ ترین لیڈروں کے لیے ایک مثال بناکہ نیک نامی اور شہرت صرف لوٹ مار کرنے سے اور قومی خزانے کو نقصان پہچانے سے ہی نہیں ملتی بلکہ یہ سب کچھ تو ہم ایک دوسرے کی مددکرکے بھی حاصل کرسکتے ہیں،بی بی سی نے 1999میں ایک انٹریو کے دوران نیلسن منڈیلا سے پوچھاسیاستدان اور لیڈر میں کیا فرق ہوتاہے؟ تو اس پر نیلسن منڈیلا نے جواب دیا کہ سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کا!!! اب زرا ہم ان سیاستدانوں کی جانب چلتے ہیں جوخود کو لیڈرکہلواتے کہلواتے نیلسن منڈیلا کی قبر پر لات مارنے کی مکمل تیاریاں کرچکے ہیں جو کئی کئی بارحکومتیں بنانے کے بعد بھی عوام کے آگے زلیل ہوتے رہے موصوف آجکل بھی بقول نیلسن منڈیلا کے اگلے الیکشن کا ہی سوچ رہے۔
آج کل پاکستان میں جن سیاستدانوں کو نیلسن منڈیلابننے کا شوق چڑھاہواہے یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی نیلسن منڈیلا کی زندگی کے بلکل الٹ اپنی زندگی کو گزارتے رہے جنھوں نے حکومتیں بھی بنائی تو سازشوں کے زریعے!!!جن لوگوں نے ان جعلی منڈیلاؤں کو ووٹ دیئے ان ہی کے خون پیا گیا۔ قوم کے خون پسینے کی کمائی کورشتے داروں اور قریبی لوگوں میں باٹتے رہے جن کے دوراقتدار میں ہر طرف رشوت کا بازارگرم رہاپاکستان کو اپنی عیاشیوں کو طول دینے کے لیے قرضوں میں جکڑاگیا قوم کی عزت کو داؤ پر لگاتے ہوئے غیروں کی جنگوں میں قوم کو دھکیلتے رہے یہ وہ لوگ ہیں جو آجکل اپنے پٹواریوں اور جیالوں سے خود کو نیلسن منڈیلا کہلوانے کے شوق میں مبتلا ہیں۔جو لوگ صوبہ سندھ جیسے پسماندہ اوربوند بوند ترستے ہوئے،ضروی سہولیات سے عاری ہسپتالوں،اسکولوں اور بیماریوں سے اٹے صوبے کو پیرس کا درجہ دے سکتے ہیں ان سے ایسی ہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے لیڈر کو کچھ بھی بناکرپیش کرسکتے ہیں، میں یقین سے کہہ سکتاہوں ہوں کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر ان مناظر کو دیکھ کر یقیناً جہاں نیلسن منڈیلا کی روح تڑپ اٹھی ہوگی وہاں اس جملے کو پڑھ کر ہر اس آدمی کو تکلیف پہنچی ہوگی جن کا مقصد انسانیت کی خدمت کرناہے۔بھلا آزادی حقوق کی علامت کو کرپشن اور دھوکہ دہی کی علامت کے ساتھ کیسے جوڑا جاسکتا ہے یہ آپ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے پست زہن کارکن اور لیڈروں سے سیکھ سکتے ہیں۔ختم شد