کچھ کتب ایسی ہوتی ہیں جو نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں لکھی گئی ہوتی ہیں، مگر ایک دفعہ ان کا مطالعہ شروع کر دیا جائے تو پھر احساس ہوتا ہے کہ انھیں مکمل کیے بنا اٹھنا ممکن ہی نہیں- یہ کتابیں بظاہر بہت زیادہ گہرائی، فلسفے اور دقیق نکات پر مشتمل نہیں ہوتیں مگر یہ آپ کو ایک خوابی دنیا میں ضرور لے جاتی ہیں- انسانی احساسات اور جذبات کی جھیل میں ہلچل پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھرپور ایسی ہی ایک کتاب “میموریز” ہے جو اپنے انداز اور اسلوب میں شاعری اور نثر کا ملغوبہ ہے مگر پڑھنے والے کو ایک خیالی دنیا میں لے جاتی ہے-
تھائی لینڈ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والی لینگ لیو، جو کہ ایک شاعرہ اور ناول نگار بھی ہیں کو قنتس سپیرٹ آف یوتھ ایوارڈ، چرچل فیلو شپ اور گڈ ریڈز ریڈرز چوائس ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے- نیوزی لینڈ میں رہائش پذیر لینگ لیو کی پہلی کتاب “لو اینڈ مس ایڈوینچرز” اور ان کا ناول “سیڈ گرلز” دنیا بھر میں بیسٹ سیلر رہا- لینگ کی تحاریر نثر اور شاعری کا ملاپ ہونے کی بنا پر ایک منفرد اور دلچسپ تخلیق کا روپ دھارتی ہوئی نظر آتی ہیں- سوشل میڈیا پر دو ملین سے زائد فالورز رکھنے والی یہ مصنفہ، محبت, بے وفائی اور خواتین کو با اختیار بنانے جیسے موضوعات پر لکھنے کی بنا پر دنیائے ادب میں اپنے بے شمار شائقین کی صورت گونج رہی ہیں-
“میموریز” لینگ لیو کی تیسری کتاب ہے جو 2015 میں شائع ہوئی- مختصر نظموں اور تحاریر پر مشتمل یہ کتاب ایک ذاتی ڈائری کی مانند دکھائی دیتی ہے، جہاں لکھنے والے نے بے ساختہ اپنی محبت اور اس میں چبھنے والے نشتر، گزری یادوں اور جذبات کا بلا تکلف اظہار کر دیا ہے-
” what was it like to love him? Asked Gratitude. It was like being exhumed, I answered. And brought to life in a flash of brilliance. What was it like to be loved in return? Asked Joy. It was like being seen after a perpetual darkness, I replied. To be heard after a lifetime of silence. What was it like to lose him? asked Sorrow. There was a long pause before I responded: It was like hearing every good-bye ever said to me, said all at once”
لینگ لیو کا انداز تحریر اور الفاظ کا چناؤ قاری کو مکمل طور پر اپنے حصار میں لے کر اسے بے خود کر دیتا ہے- اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا, کہ رات کی تنہائی میں اس کے لفظ لفظ کو محسوس کرتے ہوئے مطالعہ کرنا انسان کو خوابوں اور خیالوں کے ان سلسلوں تک رسائی دیتا ہے، جہاں سے تقریباً ہرشخص اپنی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں گزرا ہوتا ہے- وہ پہلی محبت ہو یا وہ پہلا چہرہ جسے دیکھنے پر آپ کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں- وصل تھا یا ہجر، وفا کا درس تھا یا بے وفائی کی داستان، قاری چاہے جس سلسلے سے بھی گزرکر آیا ہو، یہ کتاب اسے کسی نہ کسی موڑ پر یاد ماضی کے جلتے الاؤ کی تپش ضرور محسوس کرواتی ہے- اور یہی اس کتاب کی اہم خوبی ہے- دوران مطالعہ، بعض جگہوں پر مجھے یوں بھی محسوس ہوا جیسے کوئی “پروین شاکر” محبوب کی بے وفائی پر تڑپتی ہو اور اپنی محبت کی صدائیں بلند کر کے محبوب کی سنگ دلی کو پگھلانے کی کوشش کر رہی ہو- “Why do you write? he asked. So I can take my love for you and give it to the world, I reply. Because you won’t take it from me.”
“میموریز” آپ کی میموری میں چھپی کئی “میموریز” کو نکال لانے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی سوچ کو ایک نئی جدت اور چاشنی بخشتی ہے- یہ کتاب شاعروں اور ان لوگوں کو لازمی پڑھنی چاہیے جو” تیرے خواب نہ دیکھیں تو گزارا نہیں ہوتا” کی صدائیں دیتے ہیں- یعنی یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے باعث دلچسپی ہے جو تخیلاتی دنیا سے وابستہ ہے- گو کہ اس کتاب کو شاہکار تو نہیں کہا جا سکتا لیکن منفرد اور تخیلاتی مواد کے شائقین کے لیے یہ ایک تحفے سے کم نہیں ہے- “Have you ever loved a rose, and bled against her thorns; and swear each night to let her go, then love her more by dawn.”
کتاب کی پرنٹ کوالٹی نہایت شاندار ہے- سرورق اور فونٹس بھی کافی دلکش دکھائی دیتے ہیں- 243 صفحات پر مشتمل یہ کتاب چائینہ میں “Andrews MCMeel Publishing” کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے- اس کی قیمت 19.99 امریکی ڈالر ہے- بقول مصنفہ، “It was words that I fell for. In the end, It was words that broke my heart” لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کتاب اپنے الفاظ، اسلوب اور معیار سے آپ کو شاید جھومنے پر تو مجبور کرے لیکن اس کا مطالعہ آپ کو وقت کے ضیاع کا احساس دلا کر آپ کی دل شکنی ہرگز نہیں کرے گا-