محض چند ووٹوں کے سہارے کھڑی تحریکِ انصاف کی حکومت کو گرانا اپوزیشن کے لیے کوئی مسٔلہ نہیں۔ اخترمینگل حکمرانوں سے بَددِل ہوچکے۔ اُن کے ساتھ کیے گئے وعدوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی ایفاء نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ جاری۔ اُسے ایک وزارت مذید دے کر منانے کی کوشش کی گئی۔ ایم کیو ایم کی پالیسیاں بھی عجیب کہ اُسے حکومت ہی میں رہنا مرغوب۔ 2018ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا سب سے زیادہ شور ایم کیو ایم نے ہی مچایا۔ کہا گیا کہ اُس کا مینڈیٹ چُرا کر عمران خاں کی جھولی میں ڈال دیا گیا لیکن جب ”اُوپر” سے اشارہ ملا تو حکومت میں شامل بھی ہو گئی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہونے پر ایم کیو ایم کو کچھ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ ہمیشہ بَرسرِاقتدار جماعت کے ساتھ ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن تو روزِ اوّل سے ہی پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف سڑکوں پر تحریک چلانے کے حق میں تھے لیکن نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے سیاسی بساط کے ماہر شاطروں نے تحریکِ انصاف کے لیے میدان کھُلا چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاکہ ”زورآوروں” کو بھی پتہ چل سکے کہ اُنہوں نے اقتدار کس کو سونپ دیا۔ عام خیال یہی تھا کہ حکومت کم وبیش 2 سال تو نکال ہی جائے گی لیکن حکمرانوں نے پہلے 100 دنوں میں ہی ثابت کر دیا کہ ”اِن تِلوں میں تیل نہیں”۔ 10 ماہ میں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا کہ لوگوں کی ”چیخیں” نکل گئیں۔ ڈالر 158 تک جا پہنچا، سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈوب گئے ،سونا ساری حدیں توڑتا ہوا 78 ہزار روپے فی تولہ تک جا پہنچا، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں۔ حکومتی وزراء بھی کہتے ہیں کہ ملکی معیشت ICU میں ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ بھی مایوس۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی آن کرو تو کوئی اچھی خبر سنائی نہیں دیتی۔ پارلیمنٹ میں قائدِحزبِ اختلاف کو بولنے دیا جاتا ہے نہ قائدِ ایوان کو، معیشت کی حالت اچھی نہیں اور اگر پریشان ہو کر کرکٹ کا میچ دیکھو تو وہاں بھی مایوسی ہی مایوسی۔
معیشت تو ICU میں تھی ہی، رہی سہی کسر بجٹ نے نکال دی۔آج ہم سابق وزیرِخزانہ اسحاق ڈار المعروف ”اسحاق ڈالر” کو یاد کر رہے ہیں جن کے ہر بجٹ پر ہم نے کھل کر تنقید کی اور یہاں تک لکھ دیا کہ اگر نوازلیگ کی بربادی کا باعث کوئی ہو گا تو اسحاق ڈار ہو گا۔ ہم بجٹ آنے پرلیگی حکومت کو مخاطب کرکے کہا کرتے تھے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
لیکن پیپلزپارٹی سے درآمد شدہ نئے پاکستان کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے ہاں تو مجبوروں، مقہوروں کے لیے ”قطرۂ شبنم” بھی نہیں۔ اُنہوں نے تو مفلسوں کی کی بچی کھچی سانسوں پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ اب صرف موت پر ہی ٹیکس باقی ہے، دیکھیں یہ کب لگتا ہے؟۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود حکومت اب بھی صبر کی تلقین کر رہی ہے لیکن صبر آخر کہاں تک؟۔
تحریکِ انصاف کو جان لینا چاہیے تھا کہ اپوزیشن کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں، جو نقصان ہوگا، حکومت ہی کا ہوگا مگر وہ ابھی تک کنٹینر سے ہی نہیں اُتری۔ اُسے ادراک ہی نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں کیا فرق ہوتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی احتجاج شروع کر دیتی ہے حالانکہ احتجاج اپوزیشن کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، اپوزیشن کی نہیں لیکن یہاں معاملہ اُلٹ ہے کہ قائدِ حزبِ اختلاف تک کو بولنے نہیں دیا جاتا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کپتان اور اُن کے حواری جان چکے کہ حکومت کرنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ دگرگوں ہوتے حالات کو دیکھ کر لال حویلی والے نے بھی کہہ دیا کہ پاکستان میں عمران خاں آخری ”آپشن” ہے۔ اِس معنی خیز جملے کا یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ عمران خاں کی حکومت جانے کے ساتھ ہی جمہوری باب بھی بند ہو جائے گا۔ سوال مگر یہ کہ قصور کس کا ہے؟۔
کیا اپوزیشن کا یا پھر خود حکومت ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ گزشتہ10 ماہ میں اپوزیشن کا رویہ تو معتدل ہی رہا۔ قائدِحزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے شروع میںہی ”میثاقِ معیشت” کی پیش کش کی جسے پایۂ حقارت سے ٹھکرا کر گلی گلی میں شور مچا دیا گیا کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے۔ حکومتی وزراء اور مشیروں کی فوج ظفرموج این آر او اور کرپشن کرپشن کا ڈھول پیٹتی رہتی ہے۔ وزیرِاعظم صاحب کے ہر بیان کا یہی جزوِلاینفک کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا جبکہ اپوزیشن کا یہ چیلنج کہ جس نے این آر او مانگا ہے، اُسے سامنے لایا جائے۔ اِس چیلنج کا آج تک جواب سامنے نہیں آیا پھر بھی این آر او کی رَٹ جاری۔ وزیرِاعظم صاحب کے اندرونی اور بیرونی ممالک میں چور چور، ڈاکو ڈاکو کے نعروں نے” تنگ آمد، بجنگ آمد” کے مصداق ساری اپوزیشن کوبالآخر ایک صفحے پر لا کھڑا کیا۔ اب پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں پھر بھی حکومتی رویے میں سرِمو فرق نہیں آیا۔
حکومتی حلقے شور مچاتے رہے کہ میاں شہبازشریف ایک ”ڈیل” کے تحت لندن گئے ہیں، اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن وہ واپس آگئے۔ آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کے بعد شور مچا دیا گیا کہ ابھی اور بہت سے گرفتار ہوں گے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے سرِعام کہہ دیاکہ اب شاہد خاقان عباسی کی باری ہے جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ نَیب کی ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ فوادچودھری نے تو صاف کہہ دیا ”احتساب ہم کر رہے ہیں”۔ جب حامد میر نے اُن سے پوچھا کہ کیا نَیب کا ادارہ احتساب نہیں کر رہا تو فوادچودھری کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی سے ”سمگل” کی گئی وزیرِاعظم کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان کے پاس اپوزیشن کے لَتّے لینے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ مشکل حالات کا ادراک اُسے بھی ہے لیکن حالات جتنے زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، محترمہ کی ”بونگیاں” اُسی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ بجٹ آنے پر محترمہ نے کہا کہ عوام بجٹ کی کڑوی گولی کو ”شوگرکوٹڈ” کرکے استعمال کریں، افاقہ ہوگا۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں اُس نے کہا ”میں اور کپتان مشکل حالات میں زیادہ اچھا کھیلتے ہیں”۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ محترمہ ”کرکٹر” بھی ہے۔ شاید اُس کی یہی خوبی کپتان کو بھا گئی اور وہ معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ونشریات کے منصب کی اہل ٹھہری۔ تحریکِ انصاف میں زیادہ تر تعداد فردوس عاشق اعوان جیسے لوگوں کی ہی ہے جنہیں کپتان نے اپوزیشن کو کرپٹ ثابت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ٹی وی ٹاک شو میں میزبان سوال خواہ کچھ بھی کرے، جواب کرپشن کرپشن ہوتا ہے۔ سوال مگر یہ کہ حکمران آخر کب تک کرپشن کا ڈھول بجا کر اپنی نالائقیوںکو چھپاتے رہیں گے؟۔ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی ایک دن چھری تلے تو آنا ہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی چھری بھی تیار اور وہ تکبیر بھی پڑھ چکے۔ بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے جب ”کھیل ختم، پیسہ ہضم”۔
اگر حکمران اب بھی اپنی اداؤں پہ غور کر لیں تو شاید حالات میں بہتری کے آثار نظر آنے لگیں اور لنگڑی لولی جمہوریت کو کچھ دن اور مل جائیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ حکمران تصادم کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری گرفتار ہوئے، اُن کے پروڈکشن آرڈر آئینی تقاضہ تھا جس میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی تاکہ اسمبلی میں اُس ”عوام دشمن بجٹ” پر بحث نہ کی جا سکے جس پر نہ صرف قوم حیران وپریشان بلکہ حکومتی حلقے بھی پشیمان۔ میاں شہبازشریف نے تو اپنی طویل تقریر میں یہ مطالبہ کر دیا کہ اِس عوام دشمن بجٹ کو واپس لے کر نیا بجٹ لایا جائے لیکن اِس بجٹ کو واپس لینے کی بھلا کس میں جرأت؟۔ یہ ہمارے ”اَن داتا” آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے جس میں قومہ اور فُل سٹاپ تک ہٹانے کی کسی میں جرأت نہیں۔ اپوزیشن لاکھ بجٹ کی کاپیاں پھاڑ پھاڑ کر ہوا میں اچھالتی پھرے، کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ویسے اِس معاملے میں ہم وزیرِاعظم صاحب کو بے قصور ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کو تو خود پتہ نہیں کہ اِس بجٹ میں ہے کیا، اِسی وجہ سے وہ پُرسکون بھی ہیں۔رابندرناتھ ٹیگور کے قول کو خلیل جبران سے منسوب کرنے والے ”پُرسکون” وزیرِاعظم نے اپنی جماعت کو حکم دے رکھا ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی بھی صورت میں بجٹ پر بات نہیں ہونی چاہیے۔ جب بجٹ منظور کروانے کا وقت آئے گا تو کروا لیا جائے گا۔ اُنہیں اپوزیشن کے احتجاج پر بھی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ وزیرِداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے اُنہیں یقین دلا دیا ہے کہ اگر اپوزیشن سڑکوں پر نکلی تو اُس کی ایسی ”چھترول” ہوگی کہ نانی یاد آ جائے گی۔