لاہور (جیوڈیسک) عالمی شہرت یافتہ گلوکار و قوال راحت فتح علی خان کا کہنا ہے کہ میں بنیادی طور پر ایک قوال ہوں اور مجھے گلوکار سے زیادہ خود کو قوال کہلوانا زیادہ پسند ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے استاد راحت فتح علی خان نے کہا کہ ’’برِصغیر پاک و ہند میں قوالی کا فن تقریباً چھ سو سال پُرانا ہے، جو پشت در پشت منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچ رہا ہے، پاکستان میں استاد نصرت فتح علی خان نے فن قوالی کو پُوری دنیا میں نئے رنگ اور منفرد انداز سے متعارف کروایا ان کے والد فتح علی خان کی فنی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
راحت فتح علی خان نے یہ بھی کہا کہ استاد نصرت فتح علی خان کے انتقال کے بعد میں اپنے ملک اور خاندان کا نام پُوری دنیا میں روشن کررہا ہوں،اسی وجہ سے مجھے موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جارہی ہے، میں بنیادی طور پر ایک قوال ہوں اور مجھے گلوکار سے زیادہ خود کو قوال کہلوانا پسند ہے۔
گلوکار نے کہا کہ صُوفیانہ کلام میری روح میں بسا ہوا ہے، قوالی ہمارا خاندانی کام ہے اور قوالی کا فن کبھی ماند نہیں پڑا، قوالی ایک مقبول عوامی میوزک ہے، تا قیامت درگاہوں اور درباروں میں قوالی کی محفلیں ہوتی رہیں گی، یہ صدیوں پُرانا فن ہے، آئندہ چند برس میں فنِ قوالی کو مزید عروج ملے گا۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار نے کہا کہ آج کے دور کے گانوں میں جو صُوفیانہ رنگ نظر آتا ہے، وہ قوالی کی مرہون منت ہے، جس فلم میں بھی قوالی شامل کی جاتی ہے وہ فلم سپرہٹ ثابت ہوتی ہے، انگریز کو قوالی بہت پسند ہے وہ ہماری ثقافتی موسیقی کو بے انتہا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے آج بدھ 26 جون کو لندن میں قوالی اور موسیقی میں نمایاں خدمات انجام دینے پر استاد راحت فتح علی خاں کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے گا۔ اس موقع پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شرکت کریں گی۔