راملہ (جیوڈیسک) صدرِ فلسطین محمود عباس کا کہنا ہے کہ سیاسی حل کو ترجیح دینے کے لیے انہوں نے بحرین ورک شاپ کا بائیکاٹ کیا۔
محمود عباس نے چلی کے صدر صباستیان پنیرا سے راملہ میں صدارتی دفتر میں ملاقات کی۔
عباس نے اس ملاقات کے بعد پریس کانفرس میں ایک بار پھر اپنے نظریے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی میں قیام امن کے حل کے دعوے کے ساتھ پیش کردہ “صد سالہ معاہدہ” ناقابل ِ قبول ہے۔
عباس اس منصوبے کے تحت منعقدہ پہلی ورک شاپ کے بار ے میں کہا کہ” ہم سیاسی حل کے اقتصادی حل پر حاوی ہونے پر یقین رکھتے ہیں لہذا ہم نے بحرین ورک شاپ کو مسترد کیا ہے۔ قومی حقوق ، خریدو فروخت ہونے والے غیر منقولہ نہیں ہوتے۔ ”
انہوں نے اس بات کا بھی دفاع کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے فیصلے امریکہ کے سلسلہ امن کی واحدانہ طور پر نگرانی کے اہل نہ ہونے کی توثیق کی ہے۔ اس نے القدس، گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اردن کی مغربی پٹی کے حوالے سے غیر منصفانہ فیصلے کرتے ہوئے اپنی جانبداری کا کھلم کھلا ثبوت پیش کیا ہے۔
انہوں نے چلی کے ہم منصب کو فلسطین کی تازہ صورتحال، قابض قوتوں کے موجب بننے والے مسائل، زمین پر قبضے، ٹیکس اور مقدس مقامات پر حملوں کے حوالے سے آگاہی کراتے ہوئے بتایا کہ”قابض قوتیں ریاست ِ فلسطین کے دارالحکومت مشرقی القدس کی شناخت و ڈھانچے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ ہم مشرقی القدس کو تمام تر سماعی مذاہب سے منسلک افراد کے لیے عبادت و زیارت کے لیے کھلا رکھے جانے کے متمنی ہیں۔
چلی کے صدر پنیرا نے ایک با اختیار، محفوظ متعین شدہ سرحدوں کے اندر ایک آزاد مملکتِ فلسطین کے قیام کی حمایت کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “اسرائیلی اور فلسطینی عوام بھی اسی چیز کے خواہاں ہیں۔ اس چیز کا واحد حل دو مملکتی حل کے دائرہ کار میں وسیع پیمانے کے منصفانہ قیام امن میں پنہاں ہے۔ ”
خیال رہے کہ پنیرا نے گزشتہ روز مقبوضہ علاقے میں مسجدِ اقصیٰ کی زیارت کی تھی۔