لاہور پنجاب کا دارالحکومت اور امیر ترین شہر ہے۔لاہور میں مغلیہ سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کے دور کے متعدد یادگاریں موجود ہیں۔ اندرون لاہور میں مغلیہ طرز تعمیر کا گہرا اثر نظر آتا ہے جس میں بادشاہی مسجد، قلعہ لاہور سب سے زیادہ اہم ہیں۔ مغلیہ دور کی دیگر یادگاروں میں شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں انتہائی اہم ہیں۔ برطانوی دور کی عمارات میں لاہور عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، جامعہ پنجاب وکٹورین فن تعمیر اور مسلم فن تعمیر کا حسین امتزاج ہیں۔قیام پاکستان کے بعد لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت بنا اور قیام پاکستان کے بعد کئی عمارتیں تعمیر ہوئی جو جدید فن تعمیر اور اسلامی فن تعمیر کا امتزاج ہیں۔ زندگی کا محور بڑے بڑے سوئمنگ پولز والے ولاز، سایہ دار گلیاں، نئے ماڈل کی گاڑیاں، فارم ہاوسز، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں، پھر بھی شہر کے80 فیصد آبی وسائل میں سے صرف 20 فیصد عوام کے زیرِ استعمال ہیں۔ چند سال پہلے کچھ ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتی آبادی، اوور ڈویلپمنٹ اور ماحولیاتی تبدیلی جلد ہی لاہورکو ناقابل رہائش بنا دے گی۔
ظاہر ہے یہ وارننگ سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔ بمباں والی-راوی-بیدیاں نہر جسے عام طور پر بی آر بی نہر کہا جاتا ہے لاہور، پنجاب، پاکستان کے مشرق میں واقع ایک طویل نہر ہے۔ یہ لاہور نہر کا منبع ہے۔ اس کی وجہ شہرت پاک بھارت جنگ 1965ء میں اس کے کنارے معرکہ بھی ہے۔اور دریائے راوی جس پردلکش ہزار وں کہانیاں لکھی گئیں ہوں اور اب جہا ں زہریلے پانی سے سبزیاں اگا کے انھیں فارم فریش سمجھ کے ہم اپنے بچوں کے پیٹ میں اتار رہے ہوں۔ ا س کے بعد وہ وقت دور نہیں جب کسی عدالت کا ازخود نوٹس تیرانے کے لیے بھی صاف چھوڑ گدلا پانی میسر ہو۔و طن عز یز میں ا س و قت پانی کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی چیف جسٹس نے پانی سے متعلق پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز کی رپورٹس پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ پانی کا مسئلہ واٹر بم بنتا جارہا ہے۔ ترجمان سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق سی پی آر ڈبلیو آر کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2025ء تک ملک بھر میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ ملک بھر میں دستیاب 142 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 42 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال ہورہا ہے۔ باقی 100 ملین ایکڑ فٹ پانی مختلف طریقوں سے ضائع ہورہا ہے۔ یہ حقائق چشم کشا ہیں کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں تازہ پانی خاص طور پر پینے کے قابل پانی کی قلت ہے، اگر پانی دستیاب ہے تو وہ آلودہ ہے، پاکستان کا 80 فیصد پانی آلودہ ہے جبکہ مستقبل قریب میں آبی قلت پاکستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ثابت ہوگی۔
دوسری جانب پانی کی قلت اس قدر شدید ہوگی کہ دو ایٹمی قوتیں پانی کے وسائل پر جنگ لڑ سکتی ہیں، کیونکہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی مستقل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ نئے آبی ذخائر کی تعمیر سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ پاکستان پر آبی جنگ مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت آبی انتہا پسندی کی روش پر گامزن ہے۔ ملک بھر میں پانی کی قلت میں مسلسل اضافہ مستقبل میں خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔ حکومتی بدانتظامی، آبپاشی کے ناقص نظام، چوری اور پانی کا وافر مقدار میں بے دریغ ضیاع ہے۔ پاکستان دنیا کے 136 ممالک میں 36 ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے معیشت، عوام اور ریاست شدید دباؤ میں ہیں۔ آبی ماہرین ایک عرصے سے ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کراتے چلے آرہے ہیں، اگر پانی کے مسئلے سے اسی طرح صرف نظر کیا جاتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ملکی سطح پر اس کا بہت بڑا بحران پیدا ہوجائے گا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ماہرین کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح ڈھائی سے تین فٹ سالانہ کی شرح سے گر رہی ہے۔ شہر کے وسط میں اس وقت زیر زمین پانی کی سطح 130 فٹ ہے جوکہ 2025 تک مزید گر کر 230 فٹ تک جا سکتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2040 تک صورتحال سنگین تر ہو جائے گی۔ بحران سے بچنے کیلئے واسا لاہور نے پانی کی سپلائی کا وقت مقرر کیا، گھریلو صارفین کیلئے ٹیرف میں 20 فیصد جبکہ کمرشل صارفین کیلئے 400 فیصد اضافہ کیا۔ پٹرول پمپوں کے کنکشن منقطع کر دیئے ہیں، جہاں پانی گاڑیاں صاف کرنے کیلئے استعمال ہوتا تھا، انہیں پانی کی ری سائیکلنگ کا موثر نظام نصب کرنے کی بھی ہدایات کیں گئیں۔ حکومت اور اپوزیشن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر افسوس ذاتی مفاد ات، ایک دوسرے پر لعن طعن، دشنام طرازیاں، الزام بازیوں کے حصار میں دونوں قوتوں نے اس سنجیدہ مسئلہ کو اپنی بنیادی ترجیح نہیں بنایا۔اور اس وقت واساحکام پر سیاسی دباؤ بڑھنے کے لئے دوشہریوں نے محکمہ اینٹی کرپشن میں بداعنونیاں کا الزام لگاکردرخواستیں بھی دیں ہیں ان درخواستوں فیصلہ کیا ہوگا۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ اس وقت الزام ترشیوں کا موسم عروج پر ہے۔
حقیقت میں فضائی اور بحری آلودگی سے مضرصحت پانی نے راوی ٹاؤن، شالامارٹاؤن، واہگہ ٹاؤن، عزیز بھٹی ٹاؤن، داتا گنج بخشٹاؤن، گلبرگ ٹاؤن، سمن آبادٹاؤن، اقبال ٹاؤن، نشترٹاؤن سمیت دیگر علاقوں کے رہائشی لوگ مختلف بیماریوں کے شکارہیں۔جس کی وجہ سے خاندانی مسائل بے قابو ہوچکے ہیں۔بیماریوں میں مبتلا متعددخاندان اپنی بیماری کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی نئی نسل کی زندگی کا سوال ہے۔صرف لاہورڈویژن کا سروے کرلیا جائے یا سرکاری رپورٹ کو چیک کرلیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت لاہور ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے۔ نجی و سرکاری ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کی تعداد10لاکھ کے قریب ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کی صاف پانی بحران سے نمٹنے کے لئے بداعنونیاں کے الزامات سے باہر نکلیں، یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ کہ صاف پانی بحران نے امیر ترین شہر لاہور کو بھی ناقابل رہائش بنادیا ہے۔ نئی نسل موت کی آغوش میں جارہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن سیاست سیاست کھیل رہی ہے۔ہمیں مضرصحت پانی سے انسانیت کو بچانے کے کئے مشترکہ کوشش کرنا ہوں گی۔ورنہ وقت کسی کو بھی معاف نہیں کرئے گا۔