ماں کا مرتبہ و مقام بہت بلند ہے ،سچ تویہ ہے کہ شفقت ، خلوص ، بے لوث محبت، ایثار و قربانی کا دوسرا نام ہے۔” ماں” کا لفظ زبان پر آتے ہی محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس پیدا ہوتا ہے۔”ماں” کا سایہ اولاد کیلئے ٹھنڈی چھاؤں کی مانندہوتا ہے۔زندگی کے نشیب و فراز ،دکھوں اور پریشانیوں میںاس کا دستِ شفقت ایک سایہ داردرخت کی مانند سائباں کی صورت اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔ماں اپنی زندگی میں بچوں کے روشن مستقبل کیلئے ہر دکھ اور پریشانی برداشت کرتی ہے ۔ مائیں سبھی کی عظیم ہوتی ہیں،ہماری والدہ محترمہ نے بھی دْنیا جہاں کے دکھ برداشت کئے ،پریشانیاں اٹھائیں ،لیکن ہمیشہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے زندگی گزاردی، انہیں ہم سے جدا ہوئے 2برس بیت گئے ،آج وہ دنیا میں نہیں رہیں ،لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ آج بھی ہمارے اوپر اپنا سایہ کئے ہوئے ہیں ۔یقینا ماںسے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دْنیا میں پیدا نہیں ہوئی ،جیسے بھی حالات رہے اْن کی محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ان کی سب محبتیں اور شفقتیں ہمارے لئے تھیں ،دنیا کی ہر قسم کی آسائشیں اور آرام ہمیں ا ُن کی اولاد سے محبت اور ربّ کائنات کی عنایات کی بدولت نصیب ہوا ،انہوں نے ہمارے لئے جو کچھ کیا وہ انہی کا خاصاتھا ،ان کی اس محبت اور شفقت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی ان مہربانیوں پرانہوں نے ہم پرکبھی احسان نہیں جتایا اور نہ ہی کبھی اپنی محبتوں کا صلہ مانگا ہمیشہ ہی بے غرض ہو کر اپنی محبت ہم پر نچھاور کرتی رہیں۔
ماں کائنات کا سب سے حسین تحفہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات میں جو سب سے خوبصورت چیز تخلیق کی وہ ماں باپ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا، اسلام نے دنیا وآخرت میں ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت دی ہے ،باپ تو گھر کے سسٹم کو چلانے کیلئے اپنے فرائض ادا کرتا ہے لیکن بچوں کی تعلیم و تربیت سمیت گھر کے تمام تر معاملات ماں کے سپرد ہوتے ہیں
رسول اکرم ۖنے فرمایا، ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔ حضرت شیخ سعدی نے کہا ”محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے”۔ مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا ”سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے”۔ الطاف حسین حالی نے کہا ”ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے”۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے۔میاں محمد بخش کہتے ہیں
باپ سراں دے تاج محمّد تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ہر اک چیز بازاروں لبھدی تے نہیں لبھدیاں نے ماواں
ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے۔ ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پْرویا جا سکتا۔خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا ہے۔ ماں ایک دْعا ہے جو ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر اْن کی حفاظت کرتی ہے۔ہر رشتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے مگر ماں کے رشتے میں کوئی خود غرضی شامل نہیں ہوتی۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو دْنیا میں سب سے زیادہ پْر خلوص ہے اْس کی زندگی کا محور صرف اور صرف اْس کی اولاد ہوتی ہے۔ماں دنیا سے چلی بھی جائے تو اْس کی دْعائیں سائے کی طرح اولاد کے ساتھ رہتی ہیں اور اْس کی دْعاؤںسے بڑی سے بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے ، ماںبے قرار ہوتو عرش کو ہلا دیتی ہے۔۔
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا ”یارسول اللہۖ !میرے حْسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ”؟۔فرمایا ”تیری ماں ” پوچھا ”پھرکون” فرمایا۔۔” تیری ماں ” اْس نے عرض کیا۔۔”پھر کون ”۔فرمایا۔۔”تیری ماں” تین دفعہ آپۖ نے یہی جواب دیا۔چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا۔”تیرا باپ ”۔ دینِ اسلام میں ماں کی نافرمانی کو بہت بڑا گناہ قرار دیاگیا ہے کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جس نے بچوں کو اپنا دودھ پلا پلا کر پالا پوسا ، اْن کی پرورش میں اپنی ہر راحت قربان کی ، اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خواہش نثار کردی۔
ایک آدمی نے اپنی والدہ کو کندھوں پر بیٹھا کر طواف کروایا تھا تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا:”کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟”.
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”نہیں، بلکہ تو نے ابھی ایک رات جب ،جب اس نے تمہیں اپنی سوکھی جگہ لٹایا اور خود گیلی جگہ لیٹی اس کا حق ادا نہیں کیا”۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماں باپ کے حقوق ساری زندگی ادا نہیں ہوسکتے۔اگر تم ستر سال تک خانہ کعبہ کا طواف کرکے اس کی نیکیاں اپنے والدین کو ہدیہ کرتے رہو تب بھی تم ان کے ایک آنسو کے قطرے کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے۔ ”ماں ”وہ عظیم نام ہے ، جس کے لئے دْنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی ورثے اور زبان و ادب میں جو الفاظ تخلیق کئے گئے ، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور ماں سے عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں جبکہ دینِ فطرت اور دین ِ رحمت نے ”ماں” کی عظمت ، خدمت اور اس کی اطاعت و فرمانبرادی کا جو درس دیا ہے وہ سب سے منفرد اور بے مثال ہے۔ماں کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور سب سے عظیم سرمایہ ہے۔ اس کی شفقت و محبت اور خلوص و وفا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
ماں اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظیم ، عقل و شعور کی پہلی درسگاہ ، خلوص کا سرچشمہ، خْدا تعالیٰ کا عکس اور ایساباغ ہے جہاںہر وقت اولاد کیلئے پھولوں کی پتیوں کی طرح نرمی ہی نرمی ہے۔ مختصر یہ کہ ماں جنت کا وہ پھول ہے کہ جس کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔
ماں باپ کی خدمت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ”میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سنا کہ وہاں کوئی شخص قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہے،جب میں نے دریافت کیا کہ قرآن پاک کی قرآت کون کررہا ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے صحابی حارثہ بن نعمان ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا” لیکن وہ تو ابھی زندہ ہیں تو جنت میں آواز کیسے۔؟”
فرشتوں نے کہا کہ اس نے اپنی ماں کی ایسی خدمت کی ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ حارثہ جب تلاوت کرے تو پوری جنت کو سناؤ۔
بیشک ! ہماری تمام تر کامیابیاں ہماری والدہ محترمہ کی تربیت اور اْن کی دْعاؤں اورہمارے والد بزرگوار کی شفقت پدری کی مرہون منت ہیں آج اتوار30جون 2019 ء والدہ محترمہ کی دوسری برسی کے سلسلے میں دعائیہ تقریب ان کی رہائش گاہ پر ہو گی ،اس موقع پر قرانی خوانی ہو گی ،آخر میں دن گیارہ بجے مرحومہ کی مغفرت و بلندی درجات کیلئے اجتماعی دعا ہو گی۔ دْعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری والدہ محترمہ کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔آمین۔ بقول شاعر
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔ آخر میں سید ظافر گیلانی کا شعر پیش خدمت ہے طلب جنت کی ہے مجھ کو یہ میرا خواب ہے مولا مرا دل ماں سے ملنے کو بہت بیتاب ہے مولا
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email.Arifsaeedbukhari@gmail.com