دوحہ (جیوڈیسک) امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا ساتواں دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ انتیس جون سے شروع ہو گیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں بات چیت کے آغاز کی تصدیق کر دی ہے۔ مذاکرات در اصل آج صبح شروع ہونا تھے تاہم یہ کچھ تاخیر کے ساتھ سہ پہر کے وقت شروع ہوئے۔ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں، جو افغانستان میں قیام امن کے لیے خصوصی امریکی مندوب ہیں۔
جنگ زدہ ملک افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان اور امریکی نمائندگان کے مابین اس سے قبل مذاکرات کے چھ ادوار منعقد ہو چکے ہیں تاہم یہ دور اس لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چند روز قبل ہی یہ امید ظاہر کی تھی کہ فریقین کے مابین یکم ستمبر تک کوئی امن معاہدہ طے ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ادوار میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور وہاں داعش جیسی دیگر شدت پسند قوتوں کو پناہ گاہ فراہم نہ کیے جانے کی یقین دہانی پر بات چیت مرکوز رہی۔ امریکی وفد اور طالبان دونوں ہی نے تصدیق کر دی ہے کہ ان معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے تاہم عملدرآمد کے طریقہ ہائے کار پر کام ابھی باقی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب خلیل زاد یہ کہہ چکے ہیں کہ مستقل جنگ بندی اور افغان قیادت کے ساتھ براہ راست بات چیت بھی امن معاہدے کا کلیدی حصہ ہیں تاہم اب تک طالبان کابل حکومت کے ساتھ ساتھ براہ راست بات چیت کو بھی منہ کرتے آئے ہیں اور جنگ بندی کو بھی۔
خلیل زاد آج شروع ہونے والے مذاکرات کے دور سے قبل گزشتہ چند ہفتوں سے خطے میں ہی موجود تھے۔ اس دوران وہ صدر اشرف غنی کے علاوہ کئی افغان علاقائی رہنماں سے بھی ملتے رہے۔ ان کی مسلسل کوشش ہے کہ طالبان اور کابل حکومت کو براہ راست مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔