1972 میں تامل ناڈو میں پیدا ہونے والا گوگل کا CEO سندر پچائی 43 سال کی عمر میں اگر محض اسلئے اہم ترین عہدہ پر 2015 میں فائز کردیا گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی ناکامی پر 35 منٹ گوگل کے بورڈ کے سامنے بولتا رہا اور بورڈ سنتا رہا تو یہ شائد چند لوگوں کیلئے توبہت بڑی بات ہوگی مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ اپنی زندگی میں محنت کر کے کامیابی حاصل کرنے کی کاوشوں پر 35 منٹ بولنا اعزاز ہے نہ کہ ناکامیوں کے قصے سنانا ۔یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ دنیا بھر کی بڑی کمپنیاں بڑے ادارے اور بڑے تھنک ٹینک زندگی میں حاصل کی گئی بڑی کامیابیوں کی بجائے ناکامیوں کو میرٹ کا حصہ بناتے چلے آرہے ہوں ،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آج کامیابیاں حاصل کرنے والے اور اچیور گمنام اور ناکامیوں میں نام کمانے والے ہر شعبہ ہائے زندگی کے سربراہان ہوتے جو کہ ناقابل عمل ہے اور یہ فطرت اور نظام قدرت کے عین منافی بھی ہے،تاہم اپنی ذات میں بلندمرتبہ بعض احباب قانون الہٰی سے روگردانی کریں تو یہ انکی ذات کی ناقابل فہم ہی تشریح ہو گی۔یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ انسان کی کامیابی اور استطاعت کا فیصلہ ہمیشہ کامیابیاں ہی کرتی چلی آئی ہیں اگر زندگی اور صلاحیتوں کو کامیاب کرنے کے فیصلے ناکامیوں نے ہی کرنے ہوتے تو آج اس دنیا میں،آپکے ملک اور صوبے میں ،آپکے شہر محلے گلی اور ہمسائے میں کوئی ایک بھی شخص ناکام نظرنہ آتا ،ناامید مایوس اور بددل دکھائی نہ دیتا،بے شک نامیدی مایوسی اور بددلی گناہ اور کفر ہے لیکن ناکامیاں بھی تو ساتھ ہیں نا۔سارے لوگ نارمل حالات میں صادق بھی نہیں ہوتے اور امین بھی نہیں،اور جو لوگ مخصوص حالات میں صادق اور امین ٹھہرتے ہیں وہ ہمیشہ یتیمی، مسافرت، بے بسی اورغربت میں نہ صرف امانت اور صداقت پر قائم رہتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے مثال بھی بنتے ہیں۔مشکل حالات میں بھی حرام کو حرام اور حلال کو حلال کہنے والوں کی مثالیں ہی تو ہمارے دین اور نبی پاک کی سنت کو اس دور میں بھی بلند سے بلند مرتبہ دیئے ہوئے ہیں،ایسے لوگ مسائل کی گرداب اور چکی میں پھنس کر بھی اپنے اصول قربان نہیں کرتے ،اور یہی لوگ استقامت کے اعلیٰ درجے کو نہ صرف پاتے ہیں بلکہ کامیابی بھی انہی کے قدم چومتی ہے۔یہ ضرور ہے کہ بعض لوگ اپنے ضمیر اور حقائق کے منافی چلنے میں ہی عافیت سمجھتے یں اور ایسا چند سالوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔مشکل حالات میں ہی امیدیں مضبوط ہوتی ہیں مگر ناکامیوں کا مزہ چکھے بنا کامیاب و کامران ہونا ہی اصل اور حقیقی کامیابی ہے اور دنیا میں ایک منفرد مقام اور اعزاز بھی۔
سندر پچائی جو بھی ہے جتنا بھی امیر ہے اور زندگی کے پہلے 43 سال وہ چاہے کتنا ہی ناکام اور پسماندہ رہا ہو اسکا کسی صورت مقابلہ عمران خان سے نہیں کیا جاسکتا،بحرحال وزیراعظم عمران خان کو سمجھنے کیلئے پہلے اپنی سوچ اور جذبات سے بغض ، نام نہاد تنقید،بے جا مخالفت اور اپنی جھوٹی انا کو کچھ دیر کیلئے الگ کرنا ہوگا،کیونکہ جب آپ نے کسی کی شخصیت پر تبصرہ کرنا ہو تو پہلے اپنے آپکو غیرجانبدار بنانا از حد ضروری ہے مگر افسوس کہ آجکل لوگ اپنے اندر کے تخیلات ،احساسات اور پراپیگنڈے بلا وجہ اگلے کے کھاتے میں ڈال کر اسے بے جا میں ملزم قصوروار اور غلط بنانے کی ناکام کوشش میں جتے رہتے ہیں،مگر وہ کہتے ہیں نا کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کو سامنے رکھ کر آج اپنے ذہنوں کی عکاسی کے مطابق گریہ و زاری کرنے والے اور اپنے آپکو سب سے بڑے ہدایت کار تصور کرنے والوں کو اس وقت شائد دنیا داری کی پوری سمجھ بوجھ ہی نہ تھی کہ جب عمران خان 17/18 سال کی عمر میں دنیابھر میں سپرسٹار کی حیثیت میں شہرت پاچکے تھے،عمران خان پر قدرت بھی مہربان رہی اور انکے جذبے اور کچھ کرنے اور پانے کی صلاحیتیں بھی ہر دور میںعروج پر رہیں۔جب آپ سر عام یہ مان لیں کہ فلاں شخص پر قدرت مکمل طور پر مہربان ہے او ر اسپر اللہ کا خصوصی کرم ہے تو پھر یہ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ آپ اسی وقت اس شخصیت پر یہ الزام بھی تھوپ دیں کہ موصوف پرلے درجے کا انا پرست اور اپنے معاملات زندگی کو مینج کرنے سے لاعلم اور ناواقف ہے۔
محترم جاوید چوہدری صاحب، عمران خان پچھلے46 سالوں میں جس عمل سے گزر رہے ہیں اسمیں نہ صرف انہوں نے کامیابیاں اور عزتیں سمیٹی ہیں بلکہ لوگوں کی اتنی دعائیں اور نیک خواہشات انکے ساتھ رہی ہیں جو شائد ہی کسی پاکستانی صحافی،بیوروکریٹ،سیاستدان یا دیگر سرکاری افسران کے مقدر میں ہوں۔ہمارا یہ المیہ ہے کہ جب کسی پر تنقید کے نشترچلانے لگیں تو پھر اپنے ذہن اور دل دماغ سے ایسے ایسے تجزیئے اور دلائل نکال لاتے ہیں کہ جیسے دنیا کے سب سے بڑے خیال رکھنے والے، مفکراور سچ کے داعی ہم ہی ہیں،عمران خان کی زندگی کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جیب میں بٹوے بھی رکھے،اپنی ذات سمیت دوستوں اور رشتہ داروں پر بھی اپنی محنت سے حاصل کردہ آمدنی سے اخراجات کئے،اپنے کریڈٹ کارڈ زبھی اپنی ہی جیب سے جاری کروائے،اپنی فلائٹوں کے ٹکٹس ،اپنی شاپنگز ،اپنے کھانے اپنی ضروریات زندگی کو اپنی مرضی اپنی رائے اور اپنی ذاتی کاوش سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔کیا کمنٹری کر کے پیسہ کمانا کوئی آسان کام ہے؟کسی کو لیکچر دینا اپنی کامیابیوں اور زندگی کے تجربات کی روشنی میں کسی کو ضروری ٹپس دینا کچھ سکھانا اور بتانا کیا جرم ہے؟باقی جناب اپنی زندگی میں ناکامیوں کی بجائے ہر پل کامیابیوں کو پانے والے اور ہر معاملے ہر مسئلہ اور ہر منصوبہ بندی پر مضبوط ارادے اور کرنے ہی کرنے کی پختہ نیتوں کے بعد جب اللہ پاک کے کرم و احسانات کی بارشیں ہوتی ہیں تو پھر یہ رب کائنات کی ہی رحمتیں ہوتی ہیں کہ لوگ آپکو قیمتی گفٹ بھی دیتے ہیں،ہزاروں ڈالرز خرچ کر کے آپکا دیدار بھی کرتے ہیں،آپکے بال اور بیٹ بھی کروڑوں میں خریدتے ہیں ،آپکی محبت میں آپکے لئے سیرو تفریح کے اخراجات بھی کرتے ہیں،اگر آپ کینسر ہسپتال بنانے لگیں تو کروڑوں روپئے آپکے قدموں میں نچھاور کردیتے ہیں ،آپ پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے بین الاقوامی سطح کی درسگاہ بنانے کا سوچیں تو وہ بھی بلا حیل وحجت آپکے توسط سے بن جاتی ہے اور یہاں تک کہ آپ اپنے ملک کے کرپٹ اور ذاتی مفادات کے حامل سیاستدانوں سے قوم کا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ پاک آپکو اس میدان میں بھی اتنی عزت دے دیتا ہے اور ان تمام کامیابیوں اور خوبیوں میں اپنی ذات سمیت آپکے جاری شدہ منصوبوں کے چھوٹے سے لے کر بڑے سے بڑے بجٹ کی تیاری اور مینجمنٹ بھی آپ ہی کی مرہون منت ہوتی ہے کیونکہ آپ پر اللہ پاک کا خصوسی کرم جو ہوتا ہے ،یہ الگ بات ہے ؤ کہ ہرزہ سرائی کرنے والوں کی انگلیاں خودبخود انکے منہ میں دب جاتی ہیں اورمفادات کے حامل انکے قلم انا پرستی ،غرور،تکبر اور خودنمائی کی سیاہی سے وہ ہی کچھ لکھنے لگتے ہیں جو سچ،حقائق اور موقع کی مناسبت کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
انا پرستی عمران خان کا قطعی ایشو نہ تھا اور نہ ہے ،غرور نام کی چیز عمران خان کی فطرت میں دور دور تک موجود نہیں ہے،صدر ذی جن چنگ،شاہ سلیمان،اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے ہاتھ ملانے کی بات کی جائے تو کیا یہ ضروری تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی طرح ہاتھ ملانے والے غیرملکیوں کے ہاتھ دس دس بار اوپر نیچے کئے جاتے تا کہ چاپلوسی اور خوش آمد کی ہی ترویج رہتی؟ سربراہ مملکت کا اپنا ایک اسٹیٹس ہونا چاہیئے اور ویسے بھی آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے تو عمران خان کی نیت ہی نہیں تھی ہاتھ تو کیا انگلی بھی ملانے کی وہ تو سابقہ حکمرانوں کے قرضوں اور انکے سود تلے دبے ہونے کے باعث ملکی کرائسز کی وجہ سے کرسٹین لیگارڈ کو بھی موقع مل گیا عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کا۔تاریخ گواہ ہے کہ سربراہان ملک کا آپس میں آدھا یا پورا ہاتھ ملانے سے نہ تو کسی ملک نے کسی پر حملہ کیا ہے اور نہ ہی طے شدہ ملاقاتوں میں اس چیز کو ایشو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔مصر اور پاکستان کے تعلقات میں سردمہری کی اصل وجوہات کو اپنی ذاتی اختراع پر قربان کردینا کسی صورت مناسب نہیں اور جہاں تک تعلق ہے عراق کے صدر صدام حسین،لیبیا کے کرنل قذافی اور وینزویلا کے صدر ہیوگوشاویز کا تو جناب ان ممالک کو حاسد دشمنوں نے بھی گھیرا اور رہی سعی کسر غداروں نے نکالی۔
عمران خان 18 ستمبر2018 میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب گئے تھے تو انہوں نے مدینہ پاک میں کچھ دیر جوتا نہیں پہنا تھا جبکہ گزشتہ دنوں 30 مئی کو وہ عمرہ پر گئے تو انہوں نے بعض جگہ جوتا پہنے رکھاجس پر تنقید کرنا حقیقت میں اپنی بے بسی اور عادت سے مجبور ہو کر محض رونے کے علاوہ اور کچھ نہیں،لوگ مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ پیدل چل کر جانے کی بھی منتیں مانتے ہیں اور اسی طرح مدینہ پاک کی گلیوں یا مسجد نبوی کے آس پاس کے سفر کو بھی پیدل طے کرنے کی نیت یا منت بھی مانتے ہزارں افراد کو دیکھا گیا ہے مگر افسوس کے اگر عمران خان نے ایک بار مدینہ پاک میں تھوڑا سا سفربنا جوتوں کے کرلیا تو اس پر بھی تنقید کے نشتر وں نے بھڑاس نکال لی ،مگر بلاشبہ مدینہ پاک میں جوتوں کے بغیر اور پھرجوتوں کے ساتھ پیدل چلنے پر یک طرفہ تنقید کرنے سے ملک کا مقدر کبھی نظر نہیں آتا۔
اور آخری بات یہ کہ دنیا میں ہر وہ کاروبار ہروہ فیکٹری اور ہر وہ معیشت کبھی تباہی کی طرف نہیں جاتی کہ جب اسکی باگ دوڑ ایسے شخص کے پاس آجائے جو نہ تو خودکاروباروں، اداروں اور ملکی اثاثوں کا دشمن ہو اور نہ اپنے رفقاء کو لوٹ مار ،ملک دشمنی اور ظلم وزیادتی کی اجازت دیتا ہو،ہاں البتہ ایسی صورت میں یہ ضرور ہوگا کہ سابقہ سالوں میں اداروں ،ملکی دولت اور سسٹم کولوٹنے اور کمزور کرنے والے آپس میں اتحاد کرکے عوام اور ملک دوست رہنما کے سامنے بلیک میلنگ یا منت ترلے کے ذریعے این آر او مانگنے کے اشارے دینے لگ جائیں گے،کیونکہ لوٹ مار میں ملوث یہ لوگ نہ تو ملک کیلئے اور نہ عوام کے لئے کسی دور میں مخلص رہے اور ان لوگوں نے محض اپنے خاندانوں اور قریبی دوستوں کو ہی ہردور میں نوازا مگرجب کبھی ان لوگوں پر انصاف اور ملکی دولت لوٹنے کیلئے دبائو آیا انہوں نے آپس میں صرف نورا کشتی کھیل کر وقت پاس کیا۔جب سابقہ ادوار میں کھلی بدمعاشی اور اپنے مزاج کے مطابق لوٹ مار کو نہ صرف وطیرہ بلکہ فریضہ سمجھ کر ملک کے اداروں ،کاروباروں اور تمام وسائل کو بے دردی سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جائے تو ایسی صورت میں ملک اور سسٹم کو سیدھا کرنے اور ترقی کے ٹریک پر لانے کیلئے عوام دوستی اور وطن پرستی کے تقاضوں کے عین مطابق اپنے پیٹ پر پتھر باندھنا بھی سنت ہیں اور دنیا میں اپنے بہترین تعلقات کی بنا پر دوستوں اور مخلص ساتھیوں سے مراسم بڑھانا بھی عین مثبت ترین عمل ہے۔ہماری حکومت ،ہماری قوم اور ہماری سیاست کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارا وزیراعظم الحمدللِہ ہمیشہ سے ایک سپرسٹار رہا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ سپرسٹار وہی بنتا ہے جس میں ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ اپنے فیلڈ اپنی ڈیوٹی اور اپنی سوچ کیلئے سوفیصد لائلٹی ،جدوجہد اور عوام دوستی بھی شامل ہو،اور اسمیں کوئی شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی کہ سپرسٹار آنے والے ہر دور اور ذمہ داری میں سپرسٹار ہی ہوتا ہے۔پھرچاہے کشتی ہو،کمپنی ہو،سسٹم ہو یا کوئی ملک ہو اسکے سابقہ ڈرائیور،مالکان یا سیاستدانوں کے پیداکردہ تمام بحرانوں کا ہر علاج اور ہر تدارک سپرسٹار کے پاس ہی ہوتا ہے۔اوریہ قابل فخر ہے کہ ناقدین بھی یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ایک سپرسٹار تھے اور ہیں،چنانچہ ملک پاکستان کولوٹنے والے ملک کو وہاں لے آئے تھے جہاں پر دنیا نہ صرف ہمیں وحشت بھری نظروں سے دیکھنے لگی تھی بلکہ ہمیں خوفزدہ بھی کرنے لگی تھی،لیکن اس موقع پر اللہ پاک کا ہم پر کتنا کرم ہوا کہ اس نے پاکستانی قوم کو عمران خان کی صورت میں ایک مخلص،عوام دوست،غریب پرور،وطن دوست،تاحیات ہیرو اور سپرسٹار وزیراعظم عطا کیا،اور اب ہمارے پاس الحمدللِہ بہت خوبصورت کمبینیشن اور حقیقی آپشن موجود ہے کہ “پاکستان بھی اور عمران خان بھی”۔ انشااللہ