جواب سوچنا ہو گا

Afghan Fans

Afghan Fans

تحریر : شاہ بانو میر

پاکستان کرکٹ میچ جیت گیا
خوشی سے نہال قوم سب دکھ بھول گئی یاد رہا
تو بس یہ
کہ
ہم سیمی فائنل کیلیے ایک اور پُل عبور کر گئے
مگر
اس کھیل کے دوران اور بعد میں
جو مناظر اور گفتگو افغانیوں کی جانب سے
منظر عام پر آئی ہے
وہ تکلیف دہ ہی نہیں
ہمارے لیے
الارمنگ ہے
“” را””
کا نیٹ ورک بھارت کے لیے کامیاب سراغ رسانی میں تو
ہمیشہ ہی ناکام رہا
لیکن
پاکستان کے لئے نفرت بغض عد۫اوت کی انتہاء کے لیے
ہمیشہ کامیاب رہا ہے

را سے جڑےکچھ مناظر
حالیہ ورلڈ کپ کرکٹ میں
دیکھنے میں آرہے ہیں
افغانستان کی ٹیم بھارتی انداز میں
پاکستان سے کرکٹ نہیں کھیل رہی تھی
گویا
ہر نفرت کو ہر بیزارگی کو عیاں کر رہی تھی
میچ جیت گئے
افغانی سوشل میڈیا پر
وڈیو بنا بنا کر اپناغیض و غضب نکال رہے ہیں
کہیں
ڈش کو توڑ کر کہیں گولیاں مار کر
بھڑاس نکالی جا رہی ہے
کہیں
کوئی کہ رہا ہے کہ
بھارت اور افغانستان کا ٹارگٹ ایک ہے اور وہ ہے پاکستان
ہم دونوں ملک ایک ہیں
یہ سب کیا ہے؟
دو برادر اسلامی ممالک کے دل ایک دوسرے سے دور ہو گئے ؟
قرآن کہتا ہے کہ
تم کسی غیر مسلم کو دوست نہ بناؤ
یہ کبھی مخلص نہیں ہو سکتے
تمہیں تکلیف پہنچتی ہے
تو
انہیں خوشی ہوتی ہے
اور
آج ہمارا سلامی بھائی اس کے بیٹے سر عام
پاکستان کے خلاف بھارت کی حمایت کرتے ہوئے
اسلام دشمنی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں ؟
ہم خطے میں کونسی نئی دنیا بسانے جا رہے ہیں ؟
چائنہ کاریڈور کیلئے پرامن خطہ ضروری ہے
خطہ پُر امن ہو گا
تو ہی تجارتی قافلے رواں دواں رہیں گے
ایک حملہ کسی کارواں پر اقوام متحدہ کی
فیملی انویٹیشن آفر کو تاراج کر دے گا
بھارت غیر اسلامی سوچ کا حامل ملک
پاکستان کی دشمنی میں اتنا بڑھ جائے
کہ
ایران ہو یا افغانستان مسلمان ممالک ہوتے ہوئے
وہ سازشوں سے ان کو ہم سے متنفر کر دے؟
علاقوں کی سیاست سے نکل کر کھیل کے میدان میں
نفرتوں کے الاؤ دہکائے
کہ
پاکستانی کھلاڑی نفسیاتی طور پے ہار جائیں
انگلینڈ کی گراؤنڈ میں منتشر سوچ کے حامل شر پسندوں کا
کھلاڑیوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش
اور
گراؤنڈ سے باہر
شائقین کا جھگڑنا کس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؟
وہ نفرت جو دلوں میں پل رہی تھی
آج باہر آ گئی
را کی ان مذموم کاروائیوں کا پردہ پہلے بھی چاک کیا جا چکا ہے
لیکن
افسوس کا مقام یہ ہے
کہ
ملک کا سربراہ ان باتوں کو غیر اہم سمجھ کر ملک میں استحکام نہیں لانا چاہتا
سیاسی گرما گرمی بے مقصد زندگی کے لئے
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اس گرما گرمی نوک جھونک سے فائدہ کسی کا نہیں
لیکن
مشہوری وہ بھی کمزور ضرور مل رہی ہے
اس سوچ کو اور اس انداز کو عمران خان نے بدلنے نہیں دینا
کیونکہ
دوسروں کو دھیان بھی تو لگائے رکھنا ہے
جب کرنے کو کچھ نہ ہو
پارٹی ساری ہاتھ پے ھاتھ دھری بیٹھی رہے
اور
وزارتیں مشاورتیں اتحادیوں کو دے دی جائیں
تو پھر وقت کیسے کٹے گا؟
کارکنان میں مایوسی پھیلے گی
لہٰذا
بہترین حل یہی ہے
وقت کا قتل کرو
بے معنی لا یعنی بحث و تمحیث میں مصروف رکھو
بغداد کا منظر ہے
ریاست پاکستان میں دشمن ملک کے اندر ہے باہر ہے
مگر
ہم نے اتفاق رائے سے اپنی سوچ کو
پاکستان کیلئے اکٹھا نہیں کرنا
کیونکہ
ایسا کرنا سیاسی موت ہے
پھر
پی ٹی آئی کے لاکھوں کارکنان کے پاس
کرنے کو کچھ نہیں رہے گا ؟
وزارتیں تو پہلے ہی ابن الوقت
مفاد پرستوں کو دینا مجبوری بن گیا
سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملا لیا تو
وہ کارکنان سب بیکار ہو جائیں گے
حالانکہ
سیاستدان لاکھ برے سہی
وہ ہمارے ہم وطن ہیں محب وطن بھی
بہترین حکمت عملی کا تقاضہ یہ ہے
کہ
جس طرح ہم
نریندر مودی سے رابطے کرتے تھکتے نہیں
اور
وہ صاف چِٹا جواب دے کر دنیا میں اکڑتے پھرتے ہیں
ایسا ہی مفاہمتی روّیہ
ہمیں گھر والوں کے ساتھ بھی روا رکھنا ہوگا
اسی میں عزت ہے اور بقا بھی

خطے میں موجود افغانستان کے عام شہریوں کے اس
افسوس ناک رویّے کو
جذباتی رد عمل کے طور پر دیکھ کر
نظر انداز کرنا ہماری حماقت ہوگی
یہ عام رویہ نہیں ہے اس میں را کی بُو ہے
سوچیں سمجھیں محسوس کریں
حکمران وقت کو چاہیے کہ
اپوزیشن کو کہیں
وہ
ملکی سلامتی کے لئے
افغان حکمرانوں سے بات کریں
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نہیں
سب کے وزیر اعظم بنیں
عوام کی زندگی کو جعلی پیدا شدہ
سیاسی جنجال پورہ سے نکالنے کا
کچھ تو سامان کریں
آپ حکومتی نشے میں چور ہیں
کہ
مضبوط ادارے پشت پر ہیں
اس لئے
کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا
آپ جو چاہیں کسی کو کہہ دیں
یاد رکھیں
سیاست خوبصورت بد بخت ڈائن ہے
جو آپ سے پہلے بہت سوں کو نگل گئی
نہ تو آپ پہلی بار لائے گئے ہیں
اور
نہ پراسرار طریقہ سے
راتوں رات آپ کو ہٹانا آخری بار ہوگا
یہ ادارے ان کے ساتھ معاہدے
اور
ان پر اندھا یقین سب سراب ہے
کیوں؟
اس لئے کہ
اس ملک کا نظام بے یقینی پر قائم ہے
یہ ملک سیاسی لحاظ سے
ابھی تک طفل مکتب ہے
طاقتور بآسانی اس کو یرغمال بنا کر
اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتے ہیں
پھر
ضرورت پوری ہونے پر
انہی کو نشان عبرت بنا ڈالتے ہیں
سیاسی مفلوج
لاغر
ذہنی غلامی
کا شاہکارہے
ہماری آپس کی جنگ ادراوں کا ٹکراؤ
را کو دعوت دیتی ہے
ملک کے اندر داخل ہو کر جو چاہے کرے
پھر
ہم آپریشن پر آپریشن کرتے ہیں
مگر
اصل فساد جو عدم برداشت کا ہے
اسے نکال باہر نہیں پھینکتے
“” را “” نےاس بار جنگ سرحدوں سے ہٹا کر
دنیا بھر میں پاکستان کے لیے ہر شعبہ میں جاری کر دی
دنیا بھر میں پاکستانیوں کا تاثر برباد کرنے کیلئے
افغانیوں کو ساتھ ملا کر کھیل کے میدان میں
جو ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے
اس کا فوری تدارک کرنا ہوگا
وقت اور سیانے یہی بتاتے ہیں
کہ
اپنوں کی قدر کرو خواہ کتنی ہی ناچاقی کیوں نہ ہو
اپنے مسلمان بھائیوں کو غیروں کے ہتھے نہ چڑہنے دیں
حکومت کو فوری توجہ دینا ہوگی
اور
سیاسی اختلافات کو کھیل کے میدان سے نکالنا ہوگا
اس میچ میں نفرت کا یہ اظہار ان کا نہیں
“” را “”کا ہے
اور
لگ یہی رہا ہے
کہ
پاکستان ایک بار پھر بین القوامی سطح پر
کھیلوں میں شان سے داخل ہونا
بھارت کو اخِتلاج میں مبتلا کرگیا
را کا ہدف
بے ضرر کھلاڑی ہیں
کھسیانی بلی کھنبہ نوچے
لمحہ فکریہ ہے
سوچنا تو ہوگا؟
افغانیوں کا یہ انداز تنفر
معاملات کو کہاں لے جائے گا
خاص طور سے جب پاکستان کے اندر اور بارڈرز پر
ان کے قبائلی رشتے صدیوں سے قائم ہیں
ملک کے اندر اور سرحد کی دوسری طرف
کے اس گٹھ جوڑ کو مثبت سمت نہ ملی
تو
پاکستان کتنے ہی ضرب عضب کر لے
ہزاروں شھادتیں مقصد سے محروم رہ جائیں گی
اگر
اس نفرت کو ختم نہ کیا گیا
بنگلہ دیش کے بعد
پاکستان کے پاس اب کھونے کو کیا ہے؟
سوال سامنے ہے
جواب سوچنا ہو گا ؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر