اسلام آباد (جیوڈیسک) لگتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم پھر سے شروع ہو گیا ہے اور کچھ حلقوں کی طرف سے نون لیگ میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش شروع ہو گئی ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ عمران خان سے نون لیگ کے ارکان پارلیمان کی ملاقاتیں نواز لیگ کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ نون لیگ کے کئی ارکان پارلیمان نے عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما نون لیگ میں مزید ٹوٹ پھوٹ کی پیش گوئی بھی کر رہے ہیں۔
دوسری طرف کئی ناقدین صوبہ پنجاب میں نون لیگ کے اہم رہنما رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کو بھی ایک پیغام قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس گرفتاری سے وہ ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹر وفاداری تبدیل کرنے کا سوچ سکتے ہیں جن پر مخلتف نوعیت کے الزامات ہیں یا ان پر سول یا فوجداری مقدمات درج ہیں۔
مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک نون لیگی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”مسلم لیگ کو کمزور کرنے کا عمل فرشتوں کی طرف سے شروع ہوگیا ہے۔ امکان ہے کہ 30 سے 40 ارکانِ پنجاب اسمبلی اپنی وفاداری کسی وقت بھی بدل سکتے ہیں۔ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ مقتدر حلقوں اور نواز شریف میں کوئی صلح صفائی ہوجائے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور ایم پی ایز اور ایم این ایز کو اسی طرح پرائیوٹ نمبروں سے کالیں آتی رہیں تو پھر ان کے پاس وفاداری تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔ فرشتے نون لیگ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ان کے آگے کسی کی بھی نہیں چلتی۔‘‘
کئی ناقدین صوبہ پنجاب میں نون لیگ کے اہم رہنما رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کو بھی ایک پیغام قرار دے رہے ہیں۔
نون لیگ کا اصرار ہے کہ ان کی صفوں میں اتحاد قائم ہے اور کوئی بھی طاقت ان صفوں میں دراڑیں نہیں ڈال سکتی۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیرِ ماحولیات مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، یہ یا کوئی اور قوت ہماری پارٹی کو کیسے توڑ سکتے ہیں: ”مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ بے روزگاری نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ ایسے میں کون پی ٹی آئی میں شامل ہو کر خودکشی کرے گا۔ خود پی ٹی آئی کو لانے والے پریشان ہیں تو وہ کیوں نون لیگ کے بندوں کو توڑیں گے۔‘‘
ماضی میں سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہمیشہ مقتدر قوتوں کے اشاروں پر ہی ہوئی۔ مشرف کے دور میں نون لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی گئی جب کہ پی پی پی کو توڑ کر پی پی پی پیٹریاٹ بنائی گئی۔
معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ موجودہ ٹوٹ پھوٹ کے مختلف محرکات ہیں: ”میرے خیال میں مقتدر قوتوں والی بات ایک فیکٹر ہو سکتا ہے لیکن ماضی میں بھی فاروڈ بلاکس بنتے رہے ہیں۔ پھر جن لوگوں کے بارے میں یہ آ رہا ہے کہ وہ وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں، ان کا تعلق وسطی یا شمالی پنجاب سے نہیں ہے۔ وہ کوئی ہارڈ کور نون لیگی نہیں ہیں اور ماضی میں بھی وہ وفاداریاں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ ان کی اپنے حلقے کے حوالے سے شکایات ہوتی ہیں اور حزبِ اختلاف میں رہ کر لوگوں کے کام کرانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ممکنہ طور پر وہ پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
سہیل وڑائچ کی اس بات کو نون لیگ کے کچھ رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے رہنما نصیر ہنجرا کا کہنا ہے کہ انتخابی سیاست میں اگر آپ کو ایس ایچ او اور ڈی ایس پی بھی نہ تنگ کرے تو یہ بھی بڑی بات ہوتی ہے: ”میرے بھائی ملک یار خان اور قاسم ہنجرا کے حوالے سے افواہ ہے کہ وہ وزیرِ اعظم سے ملے ہیں لیکن میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نون لیگ میں ہی رہیں گے۔ ہمارے صرف بزدار فیملی سے مراسم ہیں، جو اب بھی قائم ہیں۔ ہاں ہمارے علاقے کا ایک اور ایم پی اے اظہر چانڈیا ملا ہے۔ وہ پہلی مرتبہ انتخابات جیتا ہے تو اس کو حلقے کی عوام کی خدمت کرنے کے لیے وسائل چاہییں، جو حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے حاصل کرنا مشکل ہیں۔‘‘
تاہم لاہور میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ قاسم ہنجرا اور اظہر چانڈیا سمیت کم از کم پانچ ایم پی ایز نے عمران خان سے ملاقات کی تھی اور بقیہ لوگ ان کے دوست تھے، جو ان کے ساتھ گئے تھے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا: ”ان ایم پی ایز کو کلب روڈ لاہور لایا گیا اور بعد میں وہ جہاز میں بیٹھ کر اسلام آباد گئے۔ زیادہ تر ایم پی ایز اپنے علاقوں کے لیے ترقیاتی کام چاہتے ہیں اور ان کی رائے میں نون لیگ نے ماضی میں ان کے علاقوں کو نظر انداز کیا اور کوئی ترقیاتی کام نہیں کرائے۔ اس لیے وہ پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ صرف نون لیگ پر ہی نہیں رکے گا۔