یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام امن وسلامتی، تحمل و برداشت، رواداری اور احترام آدمیت کا سب سے عظیم مذہب ہے، اسلام کی نگاہ میں سب انسان بغیرکسی تفریق و امتیاز کے احترام کے مستحق ہیں، اسلام میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔اسلام وہ آفاقی عظیم مذہب ہے جس نے ساری کائنات کو امن وسلامتی اور بنی نوع انسان کے لیے احترام کا درس دیا ہے۔ یہ اسلام کی شان اور عظمت ہی ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات کے لیے پر امن بقائے باہم مذہب و ملت کا عظیم تصور پیش کیا۔ اسلام ہی نے انسانی عظمت کے مینار کو بلند کرتے ہوئے اس کو غیر جانبداری، اعتدال پسندی اور امن و سلامتی کا وہ منشور و فلسفہ عطا کیا جس پر اسلام کی عمارت تعمیر ہے۔ اسلام نے ساری کائنات کی مخلوق کو یہ درس دیا کہ ملت اسلامی کا رب سارے جہاں کا رب ہے، اس کی سب سے بڑی عظمت و شان یہ ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے اور غفور الرحیم ہے۔آج ملک سے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے، فرقہ واریت سے نجات، دینی اور ملی یگانگت کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے اخوت و مساوات اور اتحاد و یگانگت، روشن خیال اور اعتدال پسندی کے پیغام کو عام کیا جائے۔اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے تجاویز، اسلامی معاشرے میں امن کے قیام، مملکت کے استحکام اور پر امن بقائے باہم کے لیے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت، عفو و درگزر، حلم و برد باری، رواداری، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو فروغ دیا جائے یہی وہ تعلیمات ہیں جن پر عمل کے نتیجہ میں ہم فرقہ واریت سے نجات اور مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرسکتے ہیںنیز فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”خبردار میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو”۔یہی بات قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی ہے کہ: ” سب ملک کر اللہ کی رسی (ہدایت کی رسی) کو مضبوطی سے پکڑلواورتفرقہ میں نہ پڑو”(اٰل عمران:103)۔ایک اور موقع پر فرمایا :”قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو”(الشورٰی:13)۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رسول اکرمۖ کے اسوہ حسنہ کے متعلق لکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمۖ کو جس اعلیٰ درجے کے اخلاق اور اعلیٰ درجے کے طبعی و خلقی موزونیت سے نوازا تھا وہ آنے والی صدیوں اور موجودہ و آئندہ نسلوں کے لیے معراج کمال ہے اور اسے ہم اعتدال فطرت(اعتدال پسندی، میانہ روی) سلامت ذوق لطافت شعور، توازن و جامعیت اور افراد و تفریط سے پاک تعبیرکرسکتے ہیں۔حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کو جب دو کاموں میں کسی ایک کو ترجیح دینی ہوتی تو آپۖ ہمیشہ اسے اختیار فرماتے جو زیادہ سہل ہوتا۔ بشرطیکہ اس میں گناہ کا شائبہ نہ ہو، اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپۖ اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے۔
درمیانی روش کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک فرمایا ہے کہ:”اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”اُمّتِ وَسَط”بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رُسول تم پر گواہ ہو”(البقرہ:143)۔آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیںیہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ”اسی طرح” کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اُس رہنمائی کی طرف بھی، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اِس مرتبے پر پہنچے کہ ”اُمّتِ وَسَط” قرار دیے گئے، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دُنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔ ”اُمتِ وَسَط” کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہواور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط” اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو” تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا، اُس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اُسے دی تھی، وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دُنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اِس اُمّت کو بھی تمام دُنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتا ؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دُنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی، حتّٰی کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دُنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔
اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دُنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے؟اس پوری گفتگو سے یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بے اعتدالی یا شدت پسندی اسلام کا حصہ نہیں ہے۔کیونکہ اس طرح کی چیزیں فرد واحد کو بھی اور کل اجتماعیت کو بھی دنیا و آخرت میں ناکامی سے دوچار کرنے والی ہیں۔اس کے بالمقابل اعتدال پسند اور میانہ روی اسلام کے شایان شان ہے لہذا اس کا اظہار ہماری فکر و نظر اور عمل سے ظاہر ہونا چاہیے۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com