ہانگ کانگ (جیوڈیسک) ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے کی 22ویں سالگرہ کے موقع پر مظاہرین نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا۔ خیال رہے کہ مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ بل کے خلاف ہانگ کانگ میں 3 ہفتوں سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام کی جانب سے بل کی معطلی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے احتجاج میں حصہ لیا۔
کیری لام نے اتوار کے روز بل پیش کرنے پر معذرت کر لی تھی۔ بہت سے مظاہرین جنھیں ہانگ کانگ پر چین کے اثر ورسوخ بڑھنے کا خدشہ ہے، وہ کیری لام سے استعفی بھی مانگ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس قانون کو صرف معطل ہی نہیں بلکہ ختم بھی کیا جائے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گزشتہ رات ماسک اور پیلی ٹوپی پہنے نوجوان پولیس سے جھڑپ کے دوران پارلیمنٹ میں گھس آئے جہاں انہوں نے عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور اس کی دیواروں پر حکومت مخالف نعرے لکھے۔
پولیس نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاون کا آغاز کرتے ہوئے عمارت کو گھیرے میں لے کر اس کے مختلف راستوں سے اندر گھسنے کی کوشش کی، آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور لاٹھی چارج بھی کیا جس کی وجہ سے مظاہرین منتشر ہوگئے۔
مظاہرین کی جانب سے پارلیمنٹ میں برطانوی جھنڈا لہرایا گیا جبکہ دیواروں پر ’ہانگ کانگ، چین نہیں ہے‘ لکھا گیا تھا۔اس سے قبل مظاہرین نے بیجنگ کے حمایت یافتہ حکمرانوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔احتجاجی مظاہرے میں شامل 26 سالہ جوئے کا کہنا تھا کہ ہم نے مارچ کیے، دھرنے دیے مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، ہمیں اب دکھانا ہوگا کہ ایسا نہیں کہ ہم صرف بیٹھ کر کچھ نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے مگر ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق پیش کیے گئے قانون کے تحت نیم خود مختار ہانگ کانگ اور چین سمیت خطے کے دیگر علاقوں میں کیس کی مناسبت سے مفرور ملزمان کو حوالے کرنے کے معاہدے کیے جائیں گے۔
مذکورہ قانون کی مخالفت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ بِل چینی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ بیجنگ اس قانون کو سماجی کارکنان، ناقدین اور دیگر سیاسی مخالفین کی چین حوالگی کے لیے استعمال کرے گا۔دوسری جانب قانون کے حامیوں کا کہنا تھا کہ اس کی مدد سے ہانگ کانگ کو مفرور ملزمان کی پناہ گاہ بننے سے بچایا جا سکے گا۔