سلیکٹڈ پارلیمانی لفظ ہے یاغیر پارلیمانی ؟مہذب ہے یاغیرمہذب؟یوں توسلیکٹڈ لفظ اس قدر غیرمہذب معلوم نہیں ہوتا پر جس انداز میں اور جس مقصد کیلئے اپوزیشن ارکان سلیکٹڈ لفظ کا استعمال کرتے ہیں اُس کاباغورجائزہ لینے کے بعدسلیکٹڈ لفظ پرلگنی والی پابندی درست لگتی ہے ،کیاوزیراعظم پاکستان عمران خان کوسلیکٹڈوزیراعظم کہنے والے بتاسکتے ہیں کہ پاکستان میں کون ساوزیراعظم عوام کامنتخب کردہ تھا؟عمران خان سلیکٹڈہے توکونسی نئی بات ہوگئی؟ماضی کے تمام سیاستدان بھی اسی راستے سے چلتے ہوئے برسراقتدارآتے رہے ہیں جس راستے سے عمران خان آئے ہیں۔ آج صحافی کاقلم مفلوج ہے توکیا۔عادل کاعدل مجبورہے توکیایہ کون سی نئی بات ہے ہمیشہ سے ہی طاقتورنے کمزوروں کوزیرکرنے کیلئے منصف اوراہل قلم کواستعمال کیاہے۔سلیکٹڈ،سلیکٹڈ کاراگ آلاپنے والے ہوں یاکپتان کی ٹیم میں شامل کھلاڑی کوئی بھی حقیقی عوامی نمائندہ نظرنہیں آتا۔یہ لوگ عوام کے مسائل ووسائل سے بے خبرہیں یہ نہیں جانتے کہ عام عوام کے حالات زندگی کس قدر مشکلات کا شکار ہیں۔
وزیراعظم پاکستان چاہتے ہیں کہ ہرقیمت پر عوام ٹیکس دیں جبکہ عام عوام بجلی،گیس،ٹیلی فون،گھی،چینی،چائے کی پتی، بسکٹ،پیٹرولیم ایٹمز،ادویات،دودھ سمیت دیگراشیاء ضروریات پرلاگوں جنرل سیل ٹیکس دینے کی سکت بھی نہیں رکھتے،سوچیں ذرہ یہ کیساانصاف ہے کہ کوئی یتیم،مسکین،بیوہ جوصدقات وخیرات اکھٹے کرکے اپنی زندگی گزارنے پرمجبورہیں بھی بجلی،گیس ٹیلی فون سمیت تمام اشیاء خوردونوش پرکسی فیکٹری مالک،کسی وزیر،سفیر،بڑے سرمایہ دار،جاگیردار،وڈیرے مختصرکہ جولاکھوں روپے سالانہ صدقات وخیرات کرتے ہیںیاکرسکتے کے برابرٹیکس اداکرتے ہیں؟ایک بات انتہائی قابل فہم ہے کہ جس طرح اہل اقتدارعام عوام کے مسائل ووسائل سے بے خبرہیں عام عوام اب اہل اقتدارکی عیاشیوں سے اس قدربے خبرنہیں رہے،سادہ لفظوں میںیہ کہاجاسکتاہے کہ جن پر بیت رہی ہے وہ سب جانتے ہیں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ یہ جوپبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔
اخبارات کے صفحات سچ پر مبنی حقائق شائع نہیں کرسکتے۔نیوزچینل پربیٹھ کرمیزبان صحافی لاکھ چاہتے ہوئے، سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ سچ بیان نہیں کرسکتا جواس کے ملک و قوم کیلئے نقصان کا باعث بن سکتاہو،پرچائے کے کھوکھوں۔حجام کی دکانوں۔رکشوں اوربسوں سمیت ہراس جگہ جہاں دو چار لوگ اکھٹے ہوں ایسے ایسے حقائق پر مبنی حقیقی تبصرے ہوتے ہیں جنہیں سن کریہ کہے بغیرنہیں رہاجاسکتاکہ یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔وزیراعظم پاکستان ٹیکس لیناچاہتے ہیں توپھربحیثیت سربراہ ریاست عوام کویہ بھی بتاناپڑے گاکہ عام عوام کواُن کے ٹیکس کے بدلے صحت،تعلیم ،فوری اورمفت انصاف کب فراہم کریں گے؟ماضی میں قومی وسائل پرہاتھ صاف کرنے والوں کونشان عبرت کب بنائیں گے؟گرفتاریاں اورجیلں ہوناکوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی اہل اقتداراپوزیشن پارٹیوں کے سربراہان و دیگرسیاستدانوں پرسنگین ترین مقدمات قائم کرتے رہے ہیں جبکہ وقت وحالات بدلتے ہی یہ مقدمات اپنی موت آپ مرجایاکرتے تھے،ماضی کے مجرم،قیدی۔ڈاکو،لیٹرے مستقبل کے حکمران بنتے رہے ہیں لہٰذاکسی سیاستدان کی گرفتاری یااس پربننے والے مقدمات عوام کومتاثرکرنے یاحاکم وقت کوقابل اعتبارثابت کرنے کیلئے ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔
عوام کاذمہ داری کے ساتھ ٹیکس دینااورعوام کیلئے تعلیم وصحت،جان ومال کی حفاظت،فوری مفت انصاف ودیگربنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ماضی میں عام عوام کوحکومتوں نے کبھی بھی یہ سہولیات فراہم نہیں کیں اس لئے عوام وزیراعظم عمران خان کی باتوں کااس وقت تک یقین نہیں کرسکتے جب تک ماضی میں قومی وسائل اورعوام کے ساتھ نااصافی کرنے والوں کونشان عبرت نہ بنادیاجائے،جب تک صحت وتعلیم اورانصاف جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی شروع نہ ہوجائے،ویسے بھی یکساں نظام تعلیم ،صحت اورانصاف کی فراہمی پی ٹی آئی کے منشورمیں شامل ہیں۔اس بات سے کوئی انکارنہیں کہ ریاست یکساں اور موثرنظام تعلیم ،صحت کی بنیادی سہولیات اور فوری مفت انصاف کی سہولیات فراہم کرے توقوم کاہرفردباخوشی ٹیکس دے گا۔عوام یہ بھی جانناچاہتے ہیں ان کے ٹیکس کے پیسے کون۔ کب۔کہاں اورکن حالات میں خرچ کرتاہے؟دس کروڑافراد سے ٹیکس وصول کرکے دس ہزار مخصوص افرادپرخرچ کرناوہ بھی چوری چوری کہاں کاانصاف ہے؟وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ کہ وہ عوام کے ٹیکس کی حفاطت خود کریں گے جبکہ عوام کویقین دلانے کیلئے یہ ناکافی ہے ۔عوام جانناچاہتے ہیں کہ کون ساٹیکس کیوں لیاجاتاہے،کہاں خرچ ہوتاہے؟کون ساادارہ،کون ساوزیرخرچ کرتاہے،جن منصوبوں پرخرچ کیاجاتاہے اُن کی ضرورت کس قدرہے،جن منصوبہ سازوں کوذمہ داری دی جاتی ہے اُن کی شخصیت قابل اعتبارہے کہ نہیں؟اداکئے گئے ٹیکس کے بدلے عوام کوکیامل رہاہے یاکب اورکیاملنے کی اُمید ہے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com. 03134237099