اِدھر آؤ میری بات سنو ! میرا نام پیر آفتاب احمد قاسمی ہے میرا تعلق موڑہ شریف سے ہے۔ ایک میں اور چند بزرگ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک پہاڑ نما جگہ پر پیر طریقت رہبر شریعت پیر آفتاب احمد قاسمی کھڑے ہوتے ہے اور کچھ خطبہ نما ارشاد فرماتے ہیں۔ پیر آفتاب احمد قاسمی جس پہاڑ پر جلوہ فروز ہوتے ہیں اس کے نیچے دو پہاڑ ہیں سب سے نیچے والی پہاڈی پر میں بندہ ناچیز ڈاکٹر تصور حسین مرزا اور کچھ ساتھی نا معلوم ساتھ کھڑے ہو کر آپ کی واعظ سُن رہے ہوتے ہیں، ہمارے اور پیر آفتاب احمد قاسمی کے درمیان بھی ایک پہاڑ نمایاں ہوتا ہے وہاں بھی باریش سنت رسول چہروں پر سجائے کھڑے پیر آفتاب احمد قاسمی کا خطاب سن رہے ہوتے ہیں۔
یہ تھا وہ خواب جو آج سے سات آٹھ سال قبل آیا اور اس کے خواب کے آتے ہی دل و دماغ میں پیر خانے کی حُب بھڑک اٹھی کیونکہ بندہ ناچیز اپنے بچپن سے ہی حضرت پیر آفتاب احمد قاسمی کے ہاتھوں ” بیت ” جیسی عظیم سعادت حاصل کر چکا تھا۔ بچپن کی بیت اور خواب کے درمیان کم و بیش دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ خواب کے اگلے روز اپنے دوست کے ہمراہ زیارت پیر صاحب ( موہڑہ شریف )کے لئے پروگرام بنایا کہ بدھ رات کو سرائے عالمگیر سے ( موہڑہ شریف ) پیر خانہ جانا ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس میں کیا حکمت پوشیدہ تھی یا ولی کامل نے کرامت دیکھانی تھی ! بدھ کے روز اپنے سکول کی ایک ٹیچر کی بہین نے گوجرانوالہ بورڈ میں پارٹ ون کا داخلہ بجھوانے کئے لئے اپنی ہمشیرہ کے داخلہ فارم مجھے دیتے ہوئے کہا سر آپ میری سسٹر کی داخلہ فیس مبلغ ساڑھے چار سو روپے بینک میں خود جمع کروا دیں ( یہ سال 2002-3 کی بات ہے ) اور میری ماہانہ تنخواہ سے کاٹ لینا۔
حبیب بینک کی شاخ میں داخلہ فارم کے ساتھ ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا اور بینک نے داخلہ فارم جمع کر کے مجھے بقایا ساڑھے پانچ سو روپے واپس کر دئیے جن میں ایک پچاس اور ایک پانچ سو روپے کا نوٹ تھا۔گھر پہنچ کر دیکھا تو بینک نے جو نوٹ واپس کئے تھے یعنی پانچ سو اور پچاس والے وہ ساڑھے پانچ سو غائب تھے۔ کافی تلاش کئیے مگر کوئی اتا پتا نہ ملا، کپڑے لئیے تو سرائے عالمگیر آگیا سرائے عالمگیر کے تمام دوستوں کو بتایا کہ آج رات مرشد خانے موہڑہ شریف کوہ مری جارہا ہوں اور آج ہی کئی ساڑے پانچ سو گُم ہوگئے ہیں،دوستوں نے اظہارِ افسوس کی اور کہا ہم سے پیسے لیکر چلے جاؤ۔ میں نے کہا جانا تو ضرور ہے انشااللہ باقی آپ کا شکریہ کیونکہ اللہ پاک کے کرم و فضل سے مالی حالات بہتر تھے۔
اللہ اللہ کرتے میں اور میرا دوست عاصم شہزاد مغل رات کو ١١ بجے راولپنڈی والی بس پکڑ کر تقریباً صبح کے چار بجے سے راولپنڈی بس سٹاپ پر پہنچ گئے تھے۔وہاں راولپنڈی پہنچ کر پتہ چلا کہ مری جانے والی بس ساڈے چھ بجے روانہ ہو گئی ۔ ماہ دسمبر کا سخت سرد ماہ اور سخت سردی والی رات کا عالم ! خیر سردی کیا کرتی ہم تو عشق ِپیر میں غرق ہو کر گھومنے پھرنے لگ گئے کیونکہ راولپنڈی بس سٹاپ پر ساری دکانیں کھلی اور میلے جیسا ہلہ گلہ تھا۔گھومتے گماتے مری والی بس میں ہم لوگ سوار ہوگئے اور سنی بینک سٹاپ پر کوئی ساڑھے سات بجے اتر گئے، موہڑہ شریف جانے والی جیپوں کے اڈے پر پہنچ کر پتہ چلا جب تک سواریاں تقریباً چودہ مکلم نہ ہو جائیں یہ جیپ اڈے سے نہیں نکلتی۔ پوچھنے پرمعلوم ہوا دربار شریف یعنی موہڑہ شریف سنی بینک جہاں جیپ کا سٹاپ تھا۔ سات کلومیٹر کی مسافت ہے۔جوش محبت و الفت پیر کے تحت ہم پیدل ہی چلنے لگ گئے۔ کوئی ڈیڈھ دو گھنٹہ کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے دربار موہڑہ شریف تھا۔ موہڑہ شریف سٹاپ پر ایک مسجد ہے۔ وہاں وضو کیا اور کپڑے تبدیل کرنے کی غرض سے جیسے ہی قمیض اتاری یکا یک وہ ہی پیسے جو بینک والے نے داخلہ فارم جمع کرنے کے بعد بقایا ایک نوٹ پانچ سو کا اور دوسرا نوٹ پچاس روپے والہ دیا تھا، جس کو گھر پوران ، سرائے عالمگیر، حتیٰ کہ راست میں کھاتے پیتے اور کرایہ دیتے وقت نظر نہ آیا میرے سامنے تھے۔
دوست کو بتایا اور میں خود بھی حیران پرشان ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اسی شش و پنج میں ہم نے راہ گزر سے پوچھا کہ ہم پیر طریقت رہبر شریعت پیر آفتاب قاسمی کو ملنا ہے۔ہماری یہ بات کرنی تھی کہ وہ ٹک ٹک لگائے ہمارے چہروں کو گھورنے لگ گیا۔کچھ لمحے بعد بولہ ”پیر آفتاب احمد قاسمی نے اس دنیا فانی سے پردہ کر گئے ہیں ” اس نے بتایا کہ پیر صاحب کا وصال ہوئے کافی سال گزر چکے ہیں۔ یعنی آپ کا وصال ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔یہ سنتے ہی ہمارے پاؤں سے زمین کھسکنے لگی۔ کہ اللہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس آدمی نے کہا وہ سامنے دربار ہے۔یہ رستہ جاتا ہے ۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور دربار کی طرف چلنے لگئے۔۔ جب دربار کے قریب پہنچے تو ہماری آنکھوں سے دربار اوجھل ہوگی۔ہم پھر مسجد والی جگہ آتے تو دربار نظر آتا۔۔ تین چار بار ایسا ہونے سے ہماری پرشانی میں اضافہ ہوگیا تو پھر ہم نے ایک راہ گزرتے آدمی کو بتایا کہ ہم دربار پیر آفتاب احمد قاسمی جانا چاہتے ہیں تو وہ عورت بولی وہ سامنے دربار ہے چلے جاؤ۔ خیر ہم نے سارا ماجرا سنایا تو وہ عورت ہم کو دربار کے اند چھوڑ آئی اور ہم نے سلام کیا دعائے مغفرت کی دوپہر کا لنگر کھایا ظہر کی نماز ادا کی اور سجادہ نشین لخت جگر پیر آفتاب احمد قاسمی پیر اورنگ زیب بادشاہ کا شرف دیدار ہوا اور ہم واپس اگئے۔لیکن آج تقریباً بار ہ ، چودسال سے زیادہ عرصہ بیت گیا مگر میرے دل و دماغ میں یہ واقعہ ایسے ہی ہے جیسے کل کی بات ہو۔
حضور غوث زماں بابا جی خواجہ پیر محمد قاسم موہڑوی کے پوتے اور اعلیٰ حضرت امین الامت حضرت پیر محمد زاہد خان صاحب کے نور نظر امام العارفین ھضرت پیر آفتاب احمد قاسمی صبغتہ اللہ رحمتہ اللہ علیہ والئے موہڑہ شریف حضور امین الامت حضرت پیر محمد زاہد خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین موہڑہ شریف کے بڑڑے صاحبزادے ،خاندان موہڑہشریف کے ان چمکتے ستاروں میں ایک ایسا ستارہ جس کی روحانی دینی عظمتوں نے بر صغیر پاک و ہند ، یورپ اور مشرق وسطےٰ میں دربار عالیہ موہڑہ شریف کی روحانی عظمتوں سے مخلوق خدا کو فیضیاب کیا۔ سوچتا ہوں کہ مام العارفین حضرت پیر آفتاب احمد قاسمی صبغتہ اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی یہ کرامت ہے؟ یا محبت ہے؟